• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالعدم تنظیموں کے بارے میں ایک عرصے سے ریاست مخمصے کا شکار رہی ہے۔ وقت اور حالات بدلتے ہیں تو خواہ کوئی فرد ہو، معاشرہ ہو یا ریاست، ہر کسی کو اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ نہ بدلنے یا سستی کا مظاہرہ کرنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ کالعدم تنظیموں کے بارے میں ہمارے ہاں کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا ہے۔ اس معاملے کا تفصیلی تجزیہ کرنے کیلئے پہلے عالمی تبدیلیوں پر ایک نظر دوڑانی پڑے گی جو پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے وجود میں آنے، پروان چڑھنے، کالعدم قرار دیئے جانے اور پھر ریاست کیلئے درد سر بننے کا محرک بنے۔ عالمی تبدیلیوں کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور سوویت یونین کے افغانستان میں حملے سے لیکر سوویت یونین کے ٹوٹنے تک کا دور ہے، دوسرا دور اسکے بعد نائن الیون کے حملوں تک کا دور ہے، تیسرا دور نائین الیون سے لیکر یوکرائن اور شام کی خانہ جنگی کا دور ہے، اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا ایک چوتھے دور میں داخل ہو رہی ہے جسمیں کم از کم تین سپر پاورز ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ عالمی سطح پر ان چار ادوار کے متوازی اندرونی تبدیلیوں کو بھی چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن تھوڑا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ان ادوار کی تقسیم سطحی محسوس ہو گی کیونکہ سطح سے نیچے ریاستی، معاشرتی اور سیاسی حوالے سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ حکومتیں بدلیں، چہرے بدلے، تحریکیں چلیں، سوشل میڈیا آیا لیکن اس دوران ریاست کی تشکیل و ترتیب میں بنیادی یا جوہری تبدیلیاں نہیں آ سکیں۔ اصل مقتدرہ بدلی نہ فیصلہ سازی کا عمل جمہوری بن سکا، میڈیا اور سول سوسائٹی موثر کردار ادا کر سکے۔ اس لئے کالعدم تنظیموں کے مسئلے کو صرف عالمی تناظر میں ہی جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماضی میں ایک ناقص پالیسی بنائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت معاشرے میں موجود مخصوص مذہبی رجحانات کی حوصلہ افزائی کی گئی، ان رجحانات کو بیسیوں تنظیموں کی شکل میں منظم کیا گیا، انہیں بے پناہ فنڈز مہیا کئے گئے، ہر تنظیم کو مختلف مشن سونپا گیا سو اسکے مشن کے مطابق اسے فکری اور جسمانی طور پر مسلح کیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت آئین اور قوانین کی متعلقہ مانع اور تادیبی شقوں کو عملی طور پر ساقط کر دیا گیا۔ یہی نہیں بائیں بازو کے رجحانات جو پاکستانی سیاست اور معاشرت میں بڑے توانا رجحانات تھے، کو طاقت سے مکمل طور پر کچل دیا گیا اور لبرل و سیکولر رجحانات کو صرف اشرافیہ تک محدود کر دیا گیا۔ نتیجتا، ان تنظیموں کا جنم ہوا جنہیں سوویت یونین کے ہماری طرف پھیلائو، انقلابِ ایران کی پاکستان میں درآمد اور بھارتی فوج کی عددی برتری اور کشمیر کی جدوجہد آزادی میں مبینہ استعمال کیا جانا تھا۔ سوویت یونین کے پھیلائو کو روکنا امریکی پالیسی اور انقلابِ ایران کو روکنا عرب پالیسی سے ہم آہنگ تھا، جبکہ تیسرا حصہ مقامی سوچ کا عکاس تھا۔
دوسرا عالمی دور ان تنظیموں کے بارے میں عالمی لا تعلقی اور لا پروائی کا دور تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ امریکہ کی دلچسپی ختم ہو گئی، وہ کپڑے جھاڑ کر رخصت ہو گیا تو ڈالر آنے بھی بند ہو گئے۔ اب ایک دوسری ناقص پالیسی کا آغاز ہوا۔ افغانستان والی تنظیموں کو افغان خانہ جنگی میں استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ فرقہ وارانہ تنظیمیں اس دور میں خوب پروان چڑھتی رہیں اور پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی جاری رہی بلکہ شدید ہو گئی۔ بھارت کیلئے مخصوص تنظیمیں بھی اس دور میں خوب پروان چڑھیں۔ ان تینوں محاذوں پر کیا فائدے حاصل ہوئے اور کیا نقصانات، سب کو معلوم ہیں۔
نائن الیون کے بعد شروع ہونے والا تیسرا دوربالکل مختلف تھا۔ عالمی حالات ان تنظیموں کا بوریا بستر لپیٹنے کے متقاضی تھے۔ اس وقت تک یہ معاملہ پاکستان تک محدود نہیں رہا تھا، بلکہ جہادی تنظیموں کی تپش مشرقِ وسطی میں بھی محسوس ہونے لگی، روس اور چین بھی لاتعلقی ختم کرنے پر مجبور ہونے لگے سو پوری دنیا میں ایک اتفاقِ رائے ہو گیا کہ غیر ریاستی تنظیموں کو ختم کرنا ہو گا۔ لیکن ہمارے ہاں ایک تیسری ناقص پالیسی بنائی گئی۔ کچھ تنظیموں کو رخصت پر بھیج دیا گیا، کچھ زیر زمین چلی گئیں، کچھ کو کالعدم قرار دے دیا گیا، کچھ کا باطن چھپا کر ان پر خدمتِ خلق کا ظاہری لبادہ چڑھا دیا گیا، کچھ کے نام بدل گئے۔ کچھ تنظیمیں ہمارے کنٹرول سے نکل گئیں اور ہم سے ہزاروں پاکستانیوں کی جان اور اربوں ڈالر کے معاشی نقصان کا خراج لیتی رہیں لیکن ہم پس و پیش سے کام لیتے رہے۔ پھرہم پرعالمی دبائو بننا شروع ہوا اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام عائد کیا جانے لگا لیکن ہم نے روش نہ بدلی۔



.
تازہ ترین