• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتابو ں کی دنیا سلامت رہے…تاقیامت رہے… یہ ہے اس قومی کتاب میلے کا تھیم سانگ، جو 22 سے 24 اپریل تک اسلام آباد میں منعقد ہوا، اور جسے میڈیا نے قومی تاریخ کا سب سے بڑا کتاب میلہ قرار دیا۔ اس میلے کا اہتمام قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے ذیلی ادارے نیشنل بک فاونڈیشن (NBF) نے کیا تھا۔ مجھے بھی اس میلے میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہمارے ہاں عموما سیاسی جلسوں، میلوں ٹھیلوں، سرکس، اور سینما وغیرہ میں خوب رونق رہا کرتی ہے۔ تاہم کتابوں کی خاطر لوگوں کا جم غفیردیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے سارا اسلام آباد ، اس کتاب بستی میں سمٹ آیا ہو۔ہر اسٹال پر عوام کا ہجوم تھا۔ ہر عمر اور طبقے کے مرد و خواتین موجود تھے۔ قابل دید منظر تھا کہ ایک خاتون اپنے بچے کو گو د میں اٹھائے، بچہ گاڑ ی (Pram) میں کتابوں کا ڈھیررکھے، خریداری میں مصروف تھی۔ مختلف اسکولوں کے بچے بچیوں کو اپنے اساتذہ کی زیرنگرانی قطار باندھے، پاک چائنہ فرینڈشپ سینٹر میں داخل ہوتے ، مختلف اسٹالوں کا دورہ کرتے اور مختلف ہالزمیں اپنی پسند کے پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ اس کتاب میلے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میںبہت سے علمی،ادبی، اور فکری مباحثوں کا اہتمام بھی تھا۔ادب کی دنیا کے تقریبا تمام بڑے نام، میلے میں موجود تھے۔ زاہدہ حنا، افتخار عارف، اصغر ندیم سید، عطا الحق قاسمی، فاطمہ حسن ، محمود شام سمیت درجنوں ادیب تھے، جنہوں نے میلے کو رونق بخشی ۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک اور ڈاکٹر شاہد صدیقی جیسی علمی شخصیات بھی ۔ جیو کے معروف اینکر پرسن حامد میر سمیت دیگرنامور صحافی بھی کتاب میلے میں گھومتے پھرتے، اور مباحثوں میں حصہ لیتے نظر آئے۔
معروف ادیب ، کالم نگار اور پی ٹی وی کے چیئر مین عطا الحق قاسمی کا کہنا تھاکہ وہ ہر سال اس کتاب میلے میں شریک ہوتے ہیں ،مگر اس بار میلے کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ انہوں نے اسکا کریڈٹ مشیر وزیر اعظم عرفان صدیقی کو دیا۔ قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ جب سے نیشنل بک فاونڈیشن، اکادمی ادبیات ، اردو سائنس بورڈ اور دیگر علمی و ادبی اداروں کو صدیقی صاحب کی سرپرستی حاصل ہوئی ہے، یہ ادارے فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نیشنل بک فاونڈیشن کے ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی انکے ساتھ مستعد دکھائی دئیے۔ادیب اس صورتحال پر کافی خوش تھے۔ معروف شاعر اور کالم نگار سعد اللہ شاہ نے کہا کہ اگرچہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے سخت ناقد ہیں اور خود عرفان صدیقی کے بھی ، جنہوں نے کالم نگاری ترک کر کے ادب کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ حقیقت مگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ صدیقی صاحب کی وزارت،ادیبوں کے لئے بہت نفع بخش ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ( ادیبوں کی) اسقدر عزت افزائی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار زاہدہ حنا اور فاطمہ حسن نے کیا۔ صدشکر کہ یہ کتاب میلہ کسی سیاسی تفریق سے مستثنیٰ رہا۔ یہاںجماعت اسلامی کے سراج الحق، لیاقت بلوچ ، تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز اور دیگر کا بھرپور استقبال ہوا۔ خودمشیر وزیر اعظم ان سے گرم جوشی سے ملے اور انہیں خوش آمدید کہا۔
برسوں سے ہم سنتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے، کتاب میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ بیشتر کتاب میلوں میں مگر یہ بات غلط ثابت ہوچکی۔ اس قومی کتاب میلے کے اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں۔میلے میں تقریبا 134 اسٹالز لگائے گئے تھے۔ تین دن میں ساڑھے تین لاکھ لوگوں نے اس میلے میں شرکت کی۔ اوسطا 7 کروڑ روپے کی کتب فروخت ہوئیں۔حالانکہ تمام کتابیں 30 سے 50 فیصد ر عایتی قیمت پر دستیاب تھیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اصل قیمت اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔
آخری دن سفیران کتاب کانفرنس میں ادب اور ادیبوں کی ترویج کے لئے مختلف تجاویز سامنے آئیں۔ حکام نے ان تجاویز کو نوٹ کیا اوران پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروائی۔ اس موقع پر جناب عرفان صدیقی کے دو اعلانات کا خیر مقدم کیا گیا۔ ایک تو یہ کہ آئندہ کتاب میلے کا دورانیہ تین کے بجائے چار سے پانچ دن تک بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ بہت جلد ایک کتاب میلہ قبائلی علاقہ جات میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ یعنی ان علاقوں میں کتاب بستی قائم ہو گی ، جو ماضی میں دہشت گردی کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ اگر ایسا ہوتاہے تو یہ واقعتا ًموجودہ حکومت اور قومی تاریخ و ادبی ورثہ دویژن کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
عمومی طور پر علمی و ا دبی تقریبات میں بڑی سیاسی شخصیات کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتیں۔تاہم اس میلے کا افتتاح صدر پاکستان ممنون حسین نے کیا۔جبکہ اختتامی تقریب میں احسن اقبال مہمان خصوصی تھے۔ احسن اقبال نے کتاب میلے کے مرکزی تھیم " کتاب ۔ ۔ زندگی، امید، روشنی" کو سراہااور کہا کہ پاکستان کو اسی سوچ کی ضرورت ہے۔ انہیں شکوہ تھا کہ ہمارا بیشتر میڈیا اور کچھ افراد مایوسیاں پھیلانے میں مصروف ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ عالمی میڈیا اور معتبر مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت میںبہتری کی خبریں دے رہے ۔ مگر ہمارا میڈیا اور کچھ حلقے عوام میں تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان (خدانخواستہ)زوال پذیر ہے۔ احسن اقبال نے بتایاکہ ایک ٹی وی پروگرام میں اینکر نے انہیں کہا کہ آپکی حکومت شدید بحران کا شکار ہے۔ احسن اقبال نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے،مگر یہ ایسا بحران ہے جو شام سات بجے(ٹی وی پروگراموںمیں) شروع ہوتا ہے اور رات بارہ بجے ختم ہو جاتاہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں اس میلے کے تھیم کے مطابق امید اور روشنی کی بات کرنی چاہئے۔ یوں یہ کامیاب کتاب میلہ اختتام کو پہنچا۔ اختتامی تقریب کے بعد ایک نہایت افسوسناک حادثہ ہوا۔ مہمان خصوصی کی رخصتی کے بعد اسٹیج خالی دیکھ کر بہت سے شرکاء اس پر چڑھ گئے۔ اسلام آباد کی نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز بھی انہی شرکاء میں شامل تھیں۔ بے خیالی میں فرزانہ ا سٹیج کے قریب کئی فٹ گہرے خلا میں گر کر زخمی ہوئیں اور اگلے دن انتقال کر گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس جگہ ماضی میں بھی کئی حادثات ہو چکے ہیں ۔ افسوس کہ کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی(CDA) نے اب تک اس پر توجہ نہیں دی۔ اس حادثے سے کئی گھنٹے قبل عرفان صدیقی صاحب نے اسلام آباد کے مئیر شیخ انصر کی توجہ اس جانب دلوائی اور وعدہ لیا کہ اس پر ریلنگ کا انتظام کیا جائے گا۔ مگر افسوس کہ یہ حادثہ ہو کر رہا۔



.
تازہ ترین