• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اک ہنگامہ بپا ہے کہ تھمنے کو نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے بوجھو تو جانے کی پہیلی کیا کی کہ عوامی مشاعرہ شروع ہو گیا۔ وزن کی کسی کو کیا پروا۔ بس ہر کوئی غزل سرا، اپنی اپنی راگنی اور اپنا اپنا سُر بھلے کیسا ہی بے سُرا۔ بس اک شور ہے کہ کان پڑی آوازیں سنائی نہیں پڑتیں۔ اسے جمہوریت کا آرکسٹرا کہیں یا پھر وہ کٹورہ جسے پی پی بھوکا اپھر گیا۔ سال بھر لگا، عدالت کا فیصلہ آیا اور وزیراعظم کٹہرے میں۔ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ میاں نواز شریف اور اُن کے بیٹوں کی جائیدادوں کی چھان پھٹک کی جائے۔ ٹھوس شہادتیں سامنے لائی جائیں اور نتیجہ خیز تفتیش سامنے آئے، جس کی بنیاد پر کوئی ڈھنگ کا مقدمہ بنے اور متعلقہ عدالتی فورم کوئی فیصلہ صادر کرے۔ جب عدالتِ عظمیٰ نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم خود چنی ہو اور جو ہر پندھواڑے عدالتِ عظمیٰ کے خصوصی بنچ کے سامنے کارکردگی پیش کرنے کی ذمہ دار بھی ہو تو پھر اُس عدالتی عمل میں رخنہ ڈالنے کا کیا مطلب ہے؟ اب آپ اپنی ماماجی کی عوامی عدالتیں لگائیں اور خوب سیاست چمکائیں اور بی جمہوریت دُور کھڑی تماشا دیکھیں۔ اس کا مقدمے اور تفتیش پر اثرانداز ہونے کے سوا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ اور اگر پھر بھی رونق نہ جمے تو نکالیں اپنے بگچے سے اک اور 35 پنکچروں کی کہانی۔ صادق و امین! ہائے کہیں ہے یہ شے جو ایمان والوں کے پاس رتی بھر بھی ہو۔ یہ ہمارے عمران خان ہی ہیں جن کے پاس ایک مسمی صادق خان اور امین شریف ہیں جو 10 ارب روپے کی رشوت دینے لینے کی حرام خوری پہ اُن کے ایمان کو ڈگمگانے آئے تھے۔ اور آپ بھی کیا خوب امین ہیں کہ تزکیہ شہود والے کی شہادت کا اخفا تو کرتے ہیں لیکن نام لینے کو نہیں۔ لگتا ہے کہ ہمارے صادق و امین نے مالِ مفت پہ بلاسود سٹہ کھیلنا ہی کارِ ثواب جانا اور اُس نے آپ کو یہ رغبت فقط 12 روز قبل دی جب کہ پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ ہوئے بھی دو ماہ ہو چلے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اگر آپ کو خراج دینا ہی تھا تو پھر مقدمہ کی نوبت آنے سے پہلے ہی آپ کو سندیسہ دیا جاتا۔ بات سمجھ سے بالاتر ہے، لیکن آپ کو پھر بھی میڈیا ہی سے ہمارے تزکیۂ شہود والے گواہ بھی میسر ہیں۔ تو پھر دیر کیسی؟ لیکن شاید یہ پھر کہیں نجم سیٹھی کے 35 پنکچروں والا معاملہ تو نہیں اور آپ کسی پہ جو الزام چاہے لگا دیں، پھر آپ کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اب ہتک عزت کا کیس شریف بھائیوں نے دائر بھی کیا تو دہائیاں تو لگیں گی ہی کہ اُس پردہ نشین کے منہ سے نقاب اُلٹائیں۔ واہ رے واہ! میرے پیارے انصافیو! تمہیں کوئی اچھا کام کرنے کی سوجھی بھی تو ویسے ہی جیسے اندھے کو اندھیرے میں بہت دُورکی!جب سے پانامہ کے ’’مدر آف آل اسکینڈلز‘‘ کا بم پھٹا ہے۔ دھرنے والوں کی اُمید بر آئی ہے۔
ہمیں اقلیتی اور اختلافی رائے کے دو معزز منصفوں سے اور خاص طور پر عزت مآب جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب سے مکمل اتفاق ہے کہ سرمائے کی ابتدائے تشکیل (Primitive Accumulation) انسانیت سوز جرائم سے بھری پڑی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام تو ازلی طور پر ہے ہی قائم دوسروں کی محنت کے استحصال پہ۔ سرمایہ کبھی شریفانہ تھا، نہ ہے۔ لیکن مال ٹیکس مسروقہ اگر ہاتھ نہ آئے تو پلوتے دینے سے کیا حاصل؟ جب عدالت تھی ہی اندھیرے میں تو کوئی حتمی فیصلہ صادر کرتے ہوئے اپنی قانونی و آئینی حدود کیسے پھلانگ سکتی تھی۔ شریف خاندان کے بارے میں جو خاص بات ہے وہ یہ کہ میاں شریف نے اپنی کاروباری سلطنت بڑی تیزی سے کھڑی کی اور بغیر کسی ریاستی سرپرستی کے اور دو بار اُجاڑے جانے کے باوجود پھر پہلے سے بھی زیادہ عروج حاصل کر پائے۔ اور میاں نواز شریف سیاست میں نہایت تیزی سے چوٹی پر چڑھنے اُترنے پھر سے چڑھنے اور اُترنے کا ایک ڈرامائی کردار لگتے ہیں۔ شریفوں کی سیاست کو بی بی بے نظیر بھٹو شہید ’’چمک کی سیاست‘‘ کا پرتو کہتی تھیں، لیکن عجب نہیں کہ خود پیپلز پارٹی والے بھی مال و زر کے حصول میں سرپٹ دوڑ پڑے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ میاں نواز شریف اور بھٹوز کے پاس تو وراثتی ترکہ تھا پھر بھی دونوں نے ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ گند تو خوب اُڑا لیکن اب تک ثابت کچھ ہوا نہیں۔ اور عوام کو اس سے کیا غرض کہ ’’لوٹی ہوئی دولت‘‘ سے اُن کا چولہا کبھی کیوں گرم ہونا ہے۔
سیاست میں بہت دھوکہ دیا گیا ہے۔ تاآنکہ عوام نہ جان لیں کہ ہر سیاسی نعرے، سیاسی اسکینڈل اور سیاسی وعدے کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد چھپا بیٹھا ہے۔ ’’صادق و امین‘‘ کے نعرے پہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مطعون کرنے میں اندھا دھند دوڑے چلی جا رہی ہیں، ایک دوسرے کا گریبان کوئی زیادہ کیسے پھاڑے کہ حریف مخالف چت ہو جائے، یہی ہے اگلے انتخابات میں مخالفین کی سیاست کا محور اور بیچارےدو وقت کی روٹی کو ترستے عوام کو چور اوئے چور کے شور میں سجھائے تو کیا کہ کون ہے سادھ اور کون ہے چور۔ جب سبھی چور قرار پائیں تو چوروں میں سے ایک کا انتخاب کیسا؟ لے دے کے اب ہر مسئلے کا ایک ہی حل رہ گیا ہے۔ بس کرپشن ختم کرو تو پھر سارے مسئلے پُھر سے اُڑ جائیں گے اور ہر طرف پارسائی کا چلن ہوگا اور خوشحالی کی فراوانی۔ ہائے! اس پر یقین کریں تو کیسے؟ کرپشن کے سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ اور جاگیردارانہ استحصال پہ تو آپ کا ایمان کسی بھی شک سے ماورا ہو اور اس کی پالن ہار اسٹیبلشمنٹ آپ کی ایمپائر ہو اور آپ لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں کسی گوشہ نشین صادق و امین کی تلاش میں عوام کو بھٹکاتے پھریں تو لوگ اتنے سادہ بھی نہیں کہ آپ کی پہیلیوں میں بھٹک کر رہ جائیں۔ آپ ایسے ہی مومن تھے تو ٹرسٹ کے خیراتی پیسے کو سٹے پہ کیوں لگاتے اور پارٹی فنڈز کا حساب دینے کی بجائے حکمِ امتناعی کے پیچھے کیوں چھپے رہتے۔ اب مسلم لیگی بھی آئندہ بدھ سے عمران خان اور اُن کی پارٹی کے رہنماؤں کے آف شور کھاتے کھولیں گے تو شاید وہی ہو جو میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے۔ اب کرپشن مخالف سیاست نہیں، نہ ہی کرپشن کے نظام کی بیخ کنی کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش۔ اب ہر کوئی خود کو متقی اور دوسرے کو نوسرباز ثابت کرنے کی کونسی دور کی کوڑیاں ہیں جو نہیں لا رہا۔ ہم کیوں جاری احتسابی عمل (گو کہ یہ شخصی ہے) کو اس کے منطقی انجام تک پہنچنے کے لئے تفتیشی عمل اور انصاف کے تقاضوں پر ساد کرنے کو تیار نہیں؟ آپ کے اطمینانِ قلب کے لئے تقاضوں کی شہزادی کی شرطیں ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں۔ آپ بس ہجوم کے انصاف کے خواہاں ہیں تو یاد رکھیے کہ مشال کے ساتھ کیا ہوا اور پھر جو نراج کی آگ لگنی ہے، اُس میں سب کچھ بھسم ہو کہ رہ جائے گا۔ لگتا صرف یہ ہے کہ ہمارے انصاف کے علمبرداروں کی سیاست کے پیچھے اپنے مدِمخالف کو عوام کی انتخابی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ہی سازشی طریقے سے میدان سے باہر کرنے کی آرزو چھپی ہے۔ اور آپ کے سوا ہے کون جو صادق و امین کے پیمانے پہ پورا اُترے؟ ایسی خوش فہمی، ایسی نرگسیت، اللہ کی پناہ، کبھی دیکھنے کو نہ ملی۔ یقیناًوزیراعظم نواز شریف پر اخلاقی دباؤ ہے۔ میں نے گزشتہ جمعرات کو اپنے ’’نیوز‘‘ اخبار کے کالم میں لکھا تھا کہ بہتر ہوگا کہ وزیراعظم مستعفی ہوں، جے آئی ٹی میں تفتیش کے لئے پیش ہوں لیکن ہماری کون سنتا ہے؟ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم کا ذاتی میلان استعفیٰ دینے کا تھا۔
لیکن اقتدار کی سیاست کے مزے لینے والوں کے جیسے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ابھی وزیراعظم وقت کا تعین کرنے میں کچھ الجھن میں تھے کہ اُترے میدان میں ہمارے کپتان یہ دھاڑتے ہوئے کہ وزیراعظم استعفیٰ دو۔ پھر کیا تھا وزیراعظم کے اُن رفقا کے ہاتھ مضبوط ہو گئے جن کا اصرار تھا کہ اگر وزیراعظم نے استعفیٰ دیا تو اسے عمران خان اور آصف علی زرداری کی سیاسی فتح سمجھا جائے گا اور مسلم لیگ نون اور حکومت بحران کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ استعفیٰ دینے کا وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ کاش وزیراعظم ایک نئی اخلاقی مثال قائم کرتے، پھر دیکھتے کہ سیاسی بساط کیسے اُلٹتی۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ تن کا دُکھ من پہ بھاری ہے۔ اب غالباً حکومت بازو چڑھا کر میدان میں اُترے گی۔ پھر دیکھئے توتکار، گالی گلوچ اور تہمتوں کا بازار ایسا گرم ہوگا (جو کہ ہو چکا ہے) کہ پہلے دیکھنے کو نہ ملا۔ ایسے میں کوئی کسی صادق و امین کو کہاں سے تلاش کرے کہ دُور تک اندھیرا ہے۔
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لئے
ہر ایک وصلِ خداوند کی اُمنگ لئے



.
تازہ ترین