• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں سیاسی موسم ایسے ہی بدلتا رہتا ہے جیسے قدرتی موسم ہر روز بدلتا ہے، کبھی گرمی ،کبھی بارش اور کبھی کبھار آندھی طوفان، سیاسی فرنٹ پر بھی پاناما فیصلے سے قبل جو طوفان آنے کا اندیشہ تھا۔وہ تو ختم ہوگیا ہے، اب عمران خان اور نواز شریف حکومت میں ایک اور محاذ پر لفظی جنگ شروع ہوچکی ہے جس میں مارا بے چارا وہ شخص جائے گا جس نے شوخی میں عمران خان کو کچھ کہہ دیا ہوگا جس کا نام سامنے آنے پر شریف حکومت یا شریف فیملی اسے تسلیم ہی نہیں کرے گی۔یہ ویسے بھی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کا شعاررہا ہے۔ بہتر یہ تھا کہ عمران خان10ارب روپے والی بات نہ کرتے، اگر کوئی بات تھی تو اس دن ساری بات قوم کو بتادیتے۔ تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے ان کے اس الزام کی سختی سے تردید کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ا سٹیل مل کے بالواسطہ یا بلاواسطہ قابل ذکر متوقع خریدار کے چند گھنٹے کے دورہ پاکستان کی خبروں کودبایاجائے، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہےکہ میاں نواز شریف اور جندال کی دوستی پرانی ہے۔ دونوں ایک ہی بزنس سے وابستہ ہیں۔ ہوسکتا ہے جندال کو بھی آنے والے سالوں میں بھارت میں وزارت عظمیٰ یا اس کے برابر کوئی منصب لینے کا شوق ہو اس لئے وہ میاں نواز شریف کی شاگردی اختیار کررہے ہوں،اس لئے کہ پچھلے 20-25سالوں میں وہ پاکستان نہیں، پورے جنوبی ایشیا میں واحد وزیر اعظم ہیں جو اپنی ہوشیاری اورChessکے اچھے کھلاڑی ہونے کے حوالے سے ہر سطح پر اپنے کارڈز صحیح کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ اس دوران اگر انہوں نے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مبینہ طور پر دنیا بھر میں کھربوں روپے کے اثاثے بنائے ہیں تو اس میں ہمارے ایف بی آر اور دوسرے اداروں کا زیادہ قصور ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بندرکھےرہے ، ٹیکس چوری صرف پاکستان نہیں دنیا بھر میں ہوتی ہے، امریکہ اور یورپ میں بھی، مگر ہمارے ہاں ادارے کمزور ہونے کی وجہ سے کرپشن کو زیادہ تحفظات حاصل ہیں۔ اسی کمزوری کا فائدہ مقتدر خاندانوں نے بھی خوب اٹھایا ہے اور وہ بھی بڑی بہادری سے کرپشن کو کوئی برا نہیں سمجھتے۔ اس لئے افسوسناک بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں رشوت کی بیماری کینسر اور شوگر جیسی موذی بیماریوں سے بھی خطرناک سطح پر پھیل چکی ہے، اب رشوت کوئی ایشو نہیں تقریباً ہر کسی کی مجبوری یا ضرورت بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں 80فیصد سے زائد آبادی مجبوری میں کرپشن کا حصہ بن رہی ہے، مگر اس کے مقابلے میں ہماری زیادہ تر سیاسی قیادت کی کئی اعلیٰ شخصیات کرپشن کرکے اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھ رہی ہے جس سے قومی سطح پر معاشرہ اخلاقی روایات کے حوالے سے زوال پذیر ہے۔ اس وجہ سے یہاں نہ معاشرے کے اچھے حالات ہیں اور نہ ہی معیشت کے۔ معاشی فرنٹ پر بھی دو پاکستان نظر آرہے ہیں ، ایک امیر تر افراد کا پاکستان اور دوسرا غریب کا ، بلکہ غریب تر پاکستان جو اپنے اندر سیاسی قوتوں کے خوفناک جذبات دبائے بیٹھا ہے، خدا نہ کرے وہ جذبات ردعمل کی صورت میں سامنے آجائیں، اس سے ملک و قوم سب کچھ خطرے سے دو چار ہوجائیں گے۔ اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور معاشی و سماجی انصاف کی فراہمی کے لئے قومی ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ کام پارلیمنٹ کے بس کا نہیں، وہاں تو کرپشن کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایسے حالات میں قومی سطح پر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر قائد اعظم کے پاکستان میں ہمارے ہر دور کے حکمران اور سیاستدان کیا کرتے چلے آرہے ہیں۔ کیا پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں کرپشن کو قومی تحفظ دیا جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس لئے آئندہ الیکشن سے قبل ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت کم از کم نئی پارلیمنٹ کے لئے کرپشن فری جمہوریت کے سفر کا آغاز ہو۔ موجودہ جمہوریت کےا سٹائل سے قومی سطح پر مایوسی اور بددلی پھیلتی جارہی ہے جس کی ذمہ دار قوم بھی ہے کہ وہ کرپٹ اور نااہل افراد یا پارٹیوں کو الیکشن میں بار بار کامیاب کیوں کراتی ہے اگر قوم صحیح فیصلے کریں گی تو خود بخود کرپشن فری جمہوریت کا سفر شروع ہوسکتا ہے۔



.
تازہ ترین