• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے وہ ٹمپر یچر نہیں بڑھا جو پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد بڑھ گیا، خوفناک حد تک سیاسی ٹمپریچرسے اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے اور سیاسی مخالفین ایک دوسرے کیلئےجو القابات استعمال کررہے ہیں لگتا ہے جیسے یہ سیاسی ضابطہ اخلاق کا حصہ ہوں اور ان کے استعمال کے بغیر سیاست کرنے کی اجازت ہی نہ ہو۔ چونکہ سب ایک جیسے ہیں اسلئے ایک دوسرے کو جھوٹا اور لٹیرا کہہ کر اپنے دل کی تسکین حاصل کر رہے ہیں ۔ ہر کوئی ایک بوٹی کیلئے بکرا ذبح کرنے پر تُل ہوا ہے ، اپوزیشن کی جماعتوں نے فیصلے کے بعد نہ صرف وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا بلکہ کے پی کے اور سندھ اسمبلی نے اس حوالے سے قرار دادیں بھی منظور کی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں کئی دنوں سے ہنگامہ ہو رہا ہے،اپوزیشن ارکان گو نواز گو کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ آصف زرداری نے ’’ فرمان‘‘ جاری کیا ہے کہ پہلے مشرف کو گھر بھجوایا اب نواز کو بھجوائیں گے ، اس کیلئے تو گو نواز گو تحریک اور دھرنے شروع کر دیئے ہیںجبکہ ن لیگ کی طرف سے قائد تیرا اِک اشارہ ،حاضرحاضر لہو ہمار ا جیسے نعروں پر مشتمل بینرز مال روڈ کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب جے آئی ٹی پر پریشر ڈالنے کی کوششیں ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے چونکہ الیکشن کی آمد آمد ہے اور ہر کسی نے الیکشن مہم شروع کر دی ہے ، ہر پارٹی کو معلوم ہے کہ وہ بھرپور مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکتی تو اپنے مخالف کو گرانے کیلئے سیاسی اور انتخابی اتحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں عوامی تحریک ، سنی تحریک ، مجلس وحدت مسلمین اور ق لیگ پر مشتمل چار جماعتی اتحاد بنا ہوا ہے۔ جس نے منصورہ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملاقات کر کے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ،اور ورکنگ ریلشن شپ جاری رکھنے کیلئے جماعت اسلامی نے دو رکنی کمیٹی بنائی ہے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری شجاعت آنے والے دنوں میں جمعیت العلمائے پاکستان نیازی اور نورانی گروپ کے علاوہ مسلم لیگ فنکشنل ، آفتاب شیر پائو ، ایم کیو ایم پاکستان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ مئی میں پیش کئےجانے والے وفاقی بجٹ سے پہلے متحدہ الائنس کا روڈ میپ دیا جاسکے ۔ دوسری طرف یہ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے رابطے کریں۔ اس سلسلے میں شیخ رشید عنقریب ڈاکٹرطاہر القادری سے ملاقات کرینگے ۔ تیسری طرف ن لیگ نے بھی ان سب سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل تیار کر لیا ہے اور بجٹ کے فوراً بعد بلدیاتی اداروں کے ذریعے ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز جاری کئے جارہے ہیں اورعوامی مہم کو جلسوں کے ذریعے تیز کیا جارہاہے۔
ہر پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ گرینڈ الائنس کے بغیر ن لیگ کو شکست نہیں دے سکتی مگر کوئی بھی اپنے مفادات قربان کرنے کیلئے تیار نہیں۔ گو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان کے پی کے میں انتخابی اتحاد ہے اور عدالت عظمیٰ میں بھی پاناما کیس پر اکٹھے رہے ۔ اس لئے آئندہ الیکشن میں بھی اس چیز کا امکان ہے کہ پورے ملک میں انتخابی اتحاد میں رہیں لیکن جماعت اسلامی کی خواہش ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی طرح تمام دینی جماعتوں کا اتحاد بنے مگر مولانا فضل الرحمن فی الحال اس میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے وہ پوری طرح نواز شریف کے ساتھ ہیں اور کے پی کے میں وزارت اعلیٰ کے خواہش مند ہیں مگر امیر مقام کو شاید ایسا پسند نہ ہو ۔ دوسری طرف اے این پی کے ساتھ اس بات پر مقابلہ ہے اگر وزارت اعلیٰ کی ضمانت حاصل نہ ہوئی تو پھر مولانا فضل الرحمن مذہبی جماعتوں کے اتحاد کیلئے متحرک ہوںگے۔ وہ کے پی کے میں کسی صورت پی ٹی آئی کو آگے نہیں آنے دیںگے خواہ اس کیلئے انہیں جماعت اسلامی کا وزیراعلیٰ قبول کرنا پڑے۔تحریک انصاف کے اندر ایک اکثریت اس حق میں ہے کہ نواز شریف کو گرانے کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا چاہئے مگر عمران خان اس کیلئے تیار نہیں اُن کا موقف ہے کہ ہم زرداری کی کرپشن کے خلاف بات کرتے رہے ہیں اور کارکنوں کیلئے اس چیز کو ہضم کرنا مشکل ہوگا ۔ البتہ جب ناگریز ہو گیا تویک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد کر سکتے ہیں جب آصف زرداری کی بجائے بات چیت کیلئے فرنٹ پر بلاول کو لایا جائے اور ان کاحکمراں جماعت کیخلاف جے آئی ٹی بنانے کا کریڈیٹ پی ٹی آئی کا ہی رہے کیونکہ دس ماہ پہلے پانا ماایشو پر پی پی نے ہائی جیک کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی خیال کیا جارہاہے کہ آصف زرداری بھی اس کیلئے تیار ہو جائیں گے کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے اُنکے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اگر یہ اتحاد نہ ہو سکا تو پھر وہ ن لیگ سمیت دوسری جماعتوں کے مضبوط امیدواروں کو اُن کی شرائط پر پیپلز پارٹی کے ٹکٹیں دینگے اور یا انہیں آزاد حیثیت میں الیکشن میں سپورٹ کرینگے تاکہ اپنے اس نعرے کو عملی شکل دے سکیں کہ آئندہ وزیراعظم وہ بنوائیں گے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وٹو،آصف زرداری کو تفصیلی بریفنگ دے چکے ہیں اور آصف زرداری پُر اعتماد ہیں کہ آئندہ الیکشن میں انہیں سندھ میں پہلے سے تین سے پانچ نشستیں زیادہ حاصل ہونگیں ۔ اب وفاقی بجٹ کے بعد آئندہ کے سیاسی منظر کا انحصار وزیراعظم کے استعفیٰ دینے یا نہ دینے اور پھر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر ہے۔ اگر فیصلہ اسی تناسب سے رہتا ہے تو ن لیگ تحریک انصاف کے سوا ہر سیاسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرے گی اور اُن جماعتوں کے مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ بھی دے گی تاکہ دو تہائی اکثریت حاصل کر سکے ۔ لیکن اگر فیصلہ اس کے برعکس ہوتا ہے تو پھر ن لیگ کے وہ مضبوط امیدوار جو ذاتی حیثیت میں جیتے تھے وہ تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں ہونگے یا پھر ان کیساتھ انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے ۔ ان دونوں صورتوں میں ا سٹیٹس کو قائم رہیگا۔ عوام کا مفاد صرف اسی میں ہے کہ تمام چھوٹی جماعتیں متحدہ ہوں ، نئی مردم شماری کی روشنی میں سیاسی دبائو کے بغیر نئی حلقہ بندی ہو ، انتخابی اصلاحات کا قانون پاس ہونے کے بعد عملی شکل اختیار کرے اور بہتر امیدوار سامنے آئیں تو شاید تبدیلی آسکے ، ورنہ وہی پرانا سیاسی منظر نامہ ہوگا کسی طرح کی بہتری کی امید رکھنا صرف دیوانے کا خواب ہی ہو سکتاہے۔



.
تازہ ترین