• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ جس طرح کی جنگی حکمت عملی اپنا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حامیوں کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں وگرنہ زمینی حالات میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ پہلے تو امریکہ نے شام کے ایک فضائی اڈے پر ٹاماہاک کروز میزائل گرائے اور دعوی کیا گیا کہ شام کی پچیس فیصد فضائی طاقت تباہ کردی گئی ہے۔ اس کے بعد افغانستان پر سب سے بڑا غیر ایٹمی بم گرا یاجس کا مقصد امریکہ کے مخالفوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا تھا۔ دونوں قسم کے حملوں سے بظاہر شمالی کوریا اور طالبان جیسے مخالفین کو پیغام دینا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ جنگ جیتنے کیلئے ہر ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اور نائب صدر نے بھی اپنے ایشیاکے دوروں میں مذکورہ دو حملوں کا ذکر کرتے ہوئے مخالفین کو متنبہ کیا کہ امریکہ ویسے ہی ان کے خلاف بھی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے جیسا کہ اس نے شام اور افغانستان میں کیا۔ لیکن امریکہ کے مخالفین ٹس سے مس نہیں ہوئے کیونکہ ان کو علم ہے کہ ان کے حالات شام اور افغانستان سے مختلف ہیں۔
ساری دنیا کو معلوم ہے کہ شام اور افغانستان جنگ سے تباہ شدہ ممالک ہیں اور وہ امریکی حملوں کا جواب نہیں دے سکتے۔ لیکن شمالی کوریا کو اچھی طرح علم ہے کہ امریکہ کو اس پر حملے کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ امریکہ کی بہت بڑی فوج شمالی کوریا کی توپوں کی زد میں ہے۔ جنوبی کوریا کا سب سے بڑا شہر، سیول، جنگ بندی لائن سے صرف تیس میل دور ہے ۔جنوبی کوریا کی آدھی ملکی آبادی،یعنی 25 ملین سیول میں آباد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شمالی کوریاکو جنوبی کوریا میں تباہی پھیلانے کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کی بھی ضرورت نہیں: وہ زمینی توپوں سے سیول کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ شمالی کوریا کے پاس میزائل بھی ہیں جو جاپان تک مار کر سکتے ہیں۔ اس لئے امریکہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا جس سے جنوبی کوریا اور جاپان میں تباہی پھیل سکتی ہو۔ شمالی کوریا صدام حسین کا عراق نہیں ہے جس پر اتنی آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہو۔امریکہ کے سب سے بڑے بم گرانے سے طالبان بھی کوئی خاص متاثر نظر نہیں آتے۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے زیر اثر علاقے میں اضافہ کرتے جارہے ہیں اور کابل کی حکومت کافی بے بس نظر آتی ہے۔ پچھلے دنوں طالبان کے ایک چھوٹے دستے نے جس طرح شمالی افغانستان کے ایک فوجی اڈے پر تباہی مچائی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کو پسپا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی جارحانہ حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں چند ہزار فوجیوں کا اضافہ کر دیں جس سے وقتی طور پر طالبان کی یلغار رک جائے لیکن ایسا کرنے سے افغان حکومتی فوجیں طالبان کا صفایا نہیں کر سکتیں۔ امریکی حلقے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان سے صلح جوئی کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ لیکن طالبان غیر ملکی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی کی صورت میں کوئی معاہدہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اب اگر امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں اور طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ بھی ہو جائے پھر بھی کابل حکومت زیادہ دیر تک اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتی۔
امریکہ پاکستان پر بھی دباؤڈال رہا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور دوسرے جہادی گروپوں کا خاتمہ کرے۔ بظاہر پاکستان بھی امریکی دباؤ کا زیادہ اثر نہیں لے رہا۔ پاکستان کی منطق شاید یہ ہے کہ جب آخر کار افغانستان میں طالبان کو حکومت کرنی ہے تو وہ ان کے ساتھ تعلقات کیوں ختم کرے۔ مزید برآں اب امریکہ پاکستان کو کسی طرح کی مالی امداد بھی دینے پر تیار نہیں ہے:پاکستان اب امریکہ کی بجائے چین سے قرضہ جات اور مالی امداد لے رہا ہے۔ اس لئے پاکستان پر امریکی اثر میں بہت زیادہ کمی آچکی ہے۔ اب جب پاکستان کو امریکہ سے کسی مالی منفعت کی بھی توقع نہیں ہے تو وہ ایسا کیوں کرے گا؟ غرض کہ امریکہ کی افغان پالیسی بھی بند گلی کا منظر پیش کر رہی ہے۔
امریکی پالیسیوں کا عراق اور شام میں بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ پچھلے کچھ عرصے میں امریکیوں کی موصل عراق اور شام میں حملوں میں شدت آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکی فوج پر لگی پابندیاں اٹھا لی ہیں اور اب امریکی فوجی رہنما میدان جنگ میں وائٹ ہاؤس کی منظوری کے بغیر حملے کر سکتے ہیں۔ صدر اوباما کے زمانے میں ہر اس حملے کی وائٹ ہاؤس سے منظوری لینی پڑتی تھی جس میں سویلین آبادی میں اموات کا احتمال ہو۔ وائٹ ہاؤس پوری طرح چھان بین کرتا تھا کہ حملے میں سویلین کی اموات کم سے کم ہوں۔ صدر ٹرمپ نے فوجی رہنماؤں کو خود فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ موصل میں ہوائی حملوں کے نتیجے میں کئی سو سویلین مارے گئے۔ ظاہر بات ہے کہ اس طرح کی پالیسی سے امریکہ مخالف جذبات میں شدت آتی ہے اور آخر کار اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔
صدر ٹرمپ نے امریکہ کے دفاعی بجٹ میں 54بلین ڈالر کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کی موجودہ حالت پتلی ہے۔ وہ امریکی فوج کو مزید اسلحے سے لیس کر کے سمجھتے ہیں کہ اس طرح امریکہ کی دنیا میں حکمرانی مضبوط تر ہو جائے گی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو امریکہ کو اپنا جنگی سازوسامان بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کی موجودہ فوجی طاقت کچھ کم نہیں ہے۔ اگر امریکہ اپنے بحری بیڑوں اور ہوائی جہازوں میں اضافہ بھی کر لے تو وہ شمالی کوریا پر حملہ نہیں کرسکتا۔ وہ افغانستان میں دنیا کے سب سے بڑے بم مار سکتا ہے لیکن وہ اس طرح سے طالبان کو سرنگوں نہیں کر سکتا۔ شام اور عراق میں فوجی نئے فوجی سازو سامان سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی جنگی پالیسی کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

.
تازہ ترین