• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اور تشدد پر آمادگی اب کسی سیاسی یا مذہبی گروہ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ ایک ایسی بیماری میں بدل گئی ہے جو ہر قسم کے افراد سیاستدانوں، صحافیوں اور فلم ایکٹروںسے لے کر فوجیوں تک پھیل گئی ہے۔جس سے خطے میں دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ کبھی یہ نفرت دور افتادہ دیہی علاقوں یا نئے شہروں میں تبدیل ہونے والے قصبوں کے ہندو مذہبی اجتماعات تک محدو د تھی مگر اب یہ بیانیہ زبان ِ زد عام ہے اور قوم کی اجتماعی ہیجانی فکر بنتا جارہا ہے۔
نئے ہندو انڈیا کے نئے دانشور ہراچین فکری اسلحے سے لیس ہزاروں سال کی اس عظمت کہنہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں، جس میں بقول اُن کے ہراچینی بھارت کے لوگ آسمانوں میں پرواز کرنے کے لئے ا سپیس شپ اوربین السیاراتی سفر کے لئے خلائی گاڑیاں استعمال کرتے تھے ۔ افسوس، اس عظمت ِرفتہ کی بحالی میں ہندو ذہنیت ، مسلمان اور کشمیر سب سے بڑی رکاوٹ ہے جنہیں ختم کئے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ مافوق الفطرت خیالات کی بے پناہ پذیرائی اور قدیم افسانوی عظمت کے قصوںکے طفیل بھارت سیاسی مسائل کو ظلم اور جبر کے نسخہ ہائے قدیم کی مدد سے حل کرنے پر زور بڑھتا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے سیاست دانوں اور دانشوروں کا ایک بڑھتا ہوا طبقہ سیاسی اور سماجی مسائل کو حل کرنے سویلین آبادی کے قتل، نسل کشی ، لوگوں کی جبری بے دخلی اورجلاوطنی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈوں کا مشورہ کھلے عام دیتا پھر رہا ہے۔
جب قانونی پشت پناہی اور جدید ترین مہلک اسلحے کی بلا تعطل ترسیل رکھنے والی دس لاکھ جوانوں پر مشتمل طاقتور فوج کشمیریوں کے جذبہ ٔ حریت کو دبانے میں ناکام ہوچکی تو نریندر مودی کی ہندوانتہا پسند حکومت کشمیری مسلمانوں کو بھارت کا مجرم قرار دے کر غیر ریاستی عناصر، خاص طور پر ہندوتوادہشت گردوں، کو شہ دے رہی ہے کہ وہ کشمیری حریت پسندی کے مقابلے پر میدان میں اتریں۔ بھارت کی کشمیر پر بڑھتی ہوئی پریشانی اور اس کا ممکنہ حل تلاش کرنے والی نئی ذہنیت کا اندازہ بی جے پی کے ایک سینئر رہنما، سبرامنیم سوامی کے ایک حالیہ ٹویٹ سے لگایا جاسکتا ہے ۔۔۔’’وادی ٔ کشمیر میں بغاوت کا علاج یہ ہے کہ یہاں سے آبادی کو نکال کر چند سال کے لئے تامل ناڈو کے مہاجر کیمپوں میں بھیج دیا جائے۔‘‘کشمیریوں کو اپنے گھروںسے جبری طور پر نکال کر عقوبت خانوں میں بھیج دینے کے سوامی کے مطالبے کو رد کرنے کے لئے عوامی حلقوں کی طرف سے کوئی خاص آواز بلند نہ ہوئی ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف گروہی تشدد کی آگ بھڑکانے والے نعرے لگائے جارہے ہیں، اور ایسے تشدد کو مسائل کے حل کے نسخے کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔بھارت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی نسل کشی کا کھیل شروع ہوگیا، اگرچہ اس کی رفتار قدرے دھیمی تھی۔بھارتی مقبوضہ کشمیر دارلحکومت، جموں میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیاں ہندو گروہوں کومسلم اقلیتوںپر حملے کرنے کے لئے مشتعل کررہی ہیں، اور اُن کی پرتشدد کارروائیوں کو ہندو انتہا پسند انہ نظریات رکھنے والی بیوروکریسی کی خاموش حمایت بھی حاصل ہے ۔ ان گروہوں کی طرف سے گزشتہ ایک سال کے دوران سینکڑوں مسلمان خاندانوں پر حملے کئے گئے ، جبکہ ہزاروں خاندانوںکوکشمیر اور دیگر مقامات سے فرار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ ایک طے شدہ حکمت ِعملی ہے جس کے تحت ہندو انتہا پسند جموں کے علاقے کو مسلمانوں کی موجودگی سے خالی کرنا چاہتے ہیں۔
تاریخی طور پر جموں مسلم اکثریت رکھنے والا علاقہ تھا لیکن 1947ء میں بھارتی فوج نے ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر دولاکھ کے قریب مسلمانوں کا قتل ِعام کیا اور پانچ لاکھ سے زائد کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا۔ ایسا کرتے ہوئے جموں کو ایک ہندواکثریتی علاقے میں تبدیل کردیا گیاجو کشمیری مسلمانوں کا قتل ِعام کرنے والی بھارتی فوج کی حمایت کرتا ہے ۔ ایک حالیہ واقعے میںدرجنوں انتہا پسند ہندوئوں نے ایک مسلم خانہ بدوش فیملی پر حملہ کرتے ہوئے ان کا مال اسباب تباہ کردیا اور اُن کی عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا۔رپورٹس کے مطابق خاندان کے کئی افراد حملے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔
اس ماہ کے آغاز میںمسلمانوں سے جموں کو خالی کرنے کے لئے جاری کارروائیوں کے دوران ہندوشدت پسند عسکری گروہوں نے اس علاقے میں عارضی طور پر پناہ لینے والے روہنگیا مسلمان مہاجرین کے خلاف بھی مہم شروع کردی ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پانچ ہزار کے قریب روہنگیا مسلمان پناہ لئےہوئے ہیں۔ وہ گزر بسر کے لئے معمولی کام اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ہندوتوا شدت پسندی کے رجحانات میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ اب تو ہندوتاجروں نے بھی مسلمان اقلیتوں کو کھلے عام قتل کی دھمکیا ں دینا شروع کردی ہیں۔ اپریل کے آغاز میں جموںکے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر،راکیش گپتا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ روہنگیا اور بنگالی مسلمانوں کی شناخت کرکے اُنہیںیہاںسے نکال دیا جائے ۔ اُس نے دھمکی دی کہ اگر حکومت کارروائی کرنے میں ناکام رہی تو چیمبر خود ان لوگوں کو چن چن کر ہلاک کردے گا۔
حکومت حسب ِمعمول گپتا کی طرف سے قتل کی دھمکیاں دینے اور خوف وہراس پھیلانے پر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ۔ جلد ہی تمام جموں شہرمیں ایسے بینر اور ہورڈنگز دکھائی دینے لگے جن پر روہنگیا اور بنگالی مسلمانوں کو علاقے سے نکل جانے کا کہا گیا تھا ۔نیز اُنہیں تشدد کی دھمکی بھی دی گئی کہ اس ہدایت کو نظر انداز نہ کریں ۔ قہر یہ ہے کہ یہ اشتہارات جموں اورکشمیر کی National Panthers' Partyکی طرف سے لگائے گئے جس کی قیادت ایک سابق قانون ساز اور سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل ، پروفیسر بھیم سنگھ کرتے ہیں۔
پس ِ نوشت:
جیسے اشرافیہ کی طرف سے تشدد کے مطالبے میں کوئی کسر باقی تھی، ہندوستان ٹائمزنے بھارتی ریاست،مدھیہ پردیش کے قبائلی نوجوانوں کی کہانی لکھی۔بھیل قبیلے کے نوجوانو ںنے پیش کش کی ہے کہ وہ پتھرائوکرنے والے کشمیری نوجوانوں کامقابلہ گوفان (Gofan) سے کریں گے جو کہ غلیل سے ملتا جلتا ایک ہتھیار ہے جو بھیل قبیلے میں روایتی طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اخبار نے ان نوجوانوں کو ’’محب ِوطن ‘‘ قرار دیا ہے جو’’ کشمیر میں لڑنے والی سیکورٹی فورسز کی ویڈیوزدیکھ کر مشتعل ہوگئے تھے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق ایک پولیس افسر نے ’’درست اور مہلک نشانہ ‘‘ لگانے والے قبائلی نوجوانوں کی مہارت کو بھی سراہا ۔ ایک نوجوان نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’ہم نے مشہور قبائلی لیڈر، تانتیا بھیل کی قیادت میں برطانوی سرکارکے خلاف بہادری سے جنگ کی تھی ، اب ہم ایک مرتبہ پھر اپنے دیس کی خدمت کرسکتے ہیں۔‘‘
ضمیمہ :
قدیم ہتھکنڈوں کا ایک اور اظہار بھارتی حکومت کی طرف سے مسلم اکثریت رکھنے والے کشمیر میں انٹر نیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ سروسز اور فوری پیغامات کی ترسیل کی سروسز پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ حکومت نے ٹیلی گراف ایکٹ 1885 ء ، جو’’ ٹیلی گراف اور پیغامات کی ترسیل کو روکنے ‘‘ کا اختیار دیتا ہے ، کو استعمال کرتے ہوئے یہ پابندی لگائی ہے ۔ اس پابندی کا جواز پیش کرنے والے سرکاری حکم نامے کے مطابق’’ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور فوری پیغام رسانی کی سروسز کا غلط استعمال ریاست کے امن اور مفاد کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے ‘‘۔ اس طرح بہت شرمناک طریقے سے فوج اور نیم فوجی دستوں کی وحشت ناک کارروائیوں کو منظر ِعام پر لانے والے سوشل میڈیا پریہ کہہ کر پابندی لگادی گئی کہ ’’اس کی وجہ سے ریاست کے امن کو نقصان پہنچتا ہے اور تشدد میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔

.
تازہ ترین