• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طیب ایردوان نے ہندوستانی حکمرانوں کو بہت قیمتی مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے معاملے پر مذاکرات کے لئے تیار رہا کریں۔ سیاسی معاملات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ یقینی بات ہے کہ ہندوستان کے حکمرانوں کو سیاسی معاملات کی سمجھ ہوگی لیکن کسی شاعر نے کہا ہے کہ؎ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوںورنہ کیا بات کرنا نہیں آتی ہندوستان کے حکمران باتیں کرنا جانتےہیں اور بہت باتیں کرسکتے ہیں۔ انہو ںنےتاشقند معاہدے کےوقت بہت باتیں کی ہوں گی۔ شملہ معاہدہ کے وقت بھی بہت باتیں کی ہوں گی مگرکشمیر کے مسئلہ پرباتیں کچھ زیادہ دور نہیں جاتیں بات کرنے سے پہلے ہی ’’اٹوٹ انگ‘‘ باتوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور بات آگے نہیں بڑھتی۔ بھارت ماتا کا پنجاب، سندھ، بلوچستان ،سرحدبھی اٹوٹ انگ ہواکرتے تھے مگر1946، 1947کے سیاسی طوفان میں یہ تمام انگ ہندوستان سے ٹوٹ کر پاکستان سے جاملے۔ 1947کے بعد کے ستر سالوں میں ایسا ہی کوئی اور سیاسی طوفان برپا ہونے کی ضرورت تھی جس میں ریاست جموں و کشمیر کا اٹوٹ انگ بھی اپنے لوگوں کی خواہش اور آرزوئوں کےمطابق پاکستان کے ساتھ مل جاتا اور یوں پاکستان بھی مکمل ہو جاتا اور کشمیریوں کی لاکھوں زندگیوں کی قربانی بھی کامیابی کا مرحلہ طے کرتی۔کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات سے گریز کرنے کے لئے بھارتی حکمران آتشیں اسلحہ اور بربادی کے دیگر تمام ذرائع اپنے گرد اوراپنی حفاظت کے لئے جمع کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ اسلحہ اور بربادی کا سامان اور ایٹمی ذخیرہ روس کے کام نہیں آئے ،چین کے کام بھی نہیں آئے اور ہندوستان کے کام بھی نہیں آسکیں گے۔ ان تمام انتظامات کے اوپر سے وقت کے فیصلے اپنا کام کر جائیں گے۔ کشمیر اور کشمیری ہندوستان کی غلامی سے نکل جائیں گے۔ پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور ہندوستان کے حکمران اپنے دوسرے ’’اٹوٹ انگوں‘‘کو بچانے کی کوشش میں لگ جائیں گے مگر ان کی حالت اس غریب کسان کی سی ہوگی جس کے سرپر گناہوں کی گٹھڑی تیزندی کے اندر سے گزرتے وقت کھل جائے اور اسے اس گٹھڑی کو سنبھالنے میں مشکل پیش آئے۔ سال 1971میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہندوستان نے پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرکے خود اپنے ملک کی سالمیت کے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ ہندوستان دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے خواب سے جاگنے میں کامیاب ہوجائے گا اور شاید نہیں غالباً وہ بھی وقت اب گزرچکا ہے۔

.
تازہ ترین