• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ امر باعث تشویش ہے کہ ملک میں سانس کے مریضوں (دمہ) کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اس کے تدارک کے انتظامات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی اس کے اسباب پر توجہ دی جا رہی ہے۔ دمہ کے 800مریض کراچی کے ایک سرکاری اسپتال میں رجسٹرڈ کئے گئے جبکہ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی بڑی تعداد مختلف اسپتالوں میں علاج کی غرض سے آتی ہے۔ اس تناظر میں گزشتہ دنوں ’’دمہ کا عالمی دن‘‘ منایا گیا جس سے ماہرین سینہ نے خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ دمہ کی کئی وجوہات ہیں جن میں زیادہ اہم ماحولیاتی آلودگی ہے درخت ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے لئے درختوں کے بے رحمانہ کٹائی کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق دمہ کے مریضوں کی تعداد میں دنیا بھر میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ جدید طرز زندگی ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں ایسی فیکٹریاں قائم کی جا رہی ہیں جن کا دھواں اور کیمیکل سانس کے ذریعے جسم میں چلا جاتا ہے جو دمہ کا سبب بنتا ہے۔ 400مریضوں پر ریسرچ کے نتیجے میں19فیصد مریض نفسیاتی مسائل، 43فیصد انفیکشن کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا پائے گئے جبکہ 57فیصد مریضوں کو انہیلر کے استعمال سے فائدہ پہنچا۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی کی شدت کا سبب بھی یہی ہے کہ یہاں بلند بالا عمارتیں بڑی تعداد میں تعمیر کی گئی ہیں۔ تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ دمہ کے مرض کی اصل وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ حکومت درختوں کی کٹائی پر پابندی لگائے اور اشد ضرورت کے تحت بھی اجازت کے بغیر کٹائی نہ کرنے دی جائے۔ جبکہ صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس مرض سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم انفرادی طور پر بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ دھول مٹی اڑنے والے مقامات پر جانے سے اجتناب برتیں اور تواتر سے آنکھ، منہ اور ہاتھ دھوتے رہیں۔

.
تازہ ترین