• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شب ِ زفاف دلہا میاں حجرئہ عروسی میں آئے تو ان کے پیچھے پیچھے پالتو بلی بھی کمرے میں چلی آئی، دلہا کے لئے میز پر رکھے دودھ کے گلاس کی طرف لپکی، تو نوشا میاں نے بلی سے مخاطب ہو کر کہا باہر جائو، بلی نے سنی اَن سنی کر دی، وہ پھر سے بولا یہ دوسری مرتبہ ہے میں کہتا ہوں کمرے سے باہر نکلو، مگر دودھ کے لالچ میں بلی نے سن کے نہیں دیا تو اس نے کہا یہ تیسری اور آخری وارننگ ہے، چلو اٹھو اور باہر نکل جائو، اس کے ساتھ ہی دلہا نے پلنگ کے ساتھ جڑی دراز میں سے پستول نکالا، اسی لمحے ٹھائیں کی آواز کے ساتھ ہی خون آلود بلی فرش پر پڑی تڑپ رہی تھی۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے، دلہن کو سبق ازبر ہو گیا۔ جب بھی شوہر کسی کام کے لئے کہتا تو دوسری آواز پر حکم بجا لانے کو دوڑ پڑتی۔ بحث کے دوران خاموش ہونے کے لئے مکرر کہتا تو اس کی زبان پر تالے پڑ جاتے۔ وہ اچھی طرح جان چکی تھی کہ اس گھر میں تیسری غلطی کی گنجائش نہیں لیکن یہ بلی مارنے کا فارمولا ہنی مون کے اولین زمانے میں کام آتاہے۔ ہنی مون کے دن ہی ہوش میں رہنے کا زمانہ ہے۔ جو ان دنوں کو مدہوشی میں کھو دیتے ہیں وہ وقت گزر جانے پر بلیوں کو ناحق مارتے پھریں تب کوئی ان مردہ بلیوں سے سبق حاصل نہیں کرتا الٹا آدمی تمسخر کا نشانہ بن کے رہ جاتا ہے۔ ہنی مون کے جوشِ محبت میں اپنی کمزوریاں ظاہر کر دینے کے بعد شیر بننا ممکن نہیں ہوتا۔ ڈان لیکس کا مسئلہ اسی دن ختم ہو گیا تھا جب نئی محبت کے جوش میں ’’پرنسپل اکیوز‘‘ کو اس قضیے سے باہر رکھنا منظور کر لیا گیا تھا، پردہ داروں کی پردہ دری مطلوب تھی تو پھر جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہئے تھا کسی دعوے یا حق سے دستبرداری کے بعد اسے از سرِ نو شروع نہیں کیا جا سکتا۔ آج جن لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یا گزری کل جو قربانی کا بکرا بنا، ان لوگوں نے خبر لیک (فاش) کی نہ حقائق کو توڑنے مروڑنے اور بدل دینے کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں صرف اس مفروضے پر سزا سنائی جا رہی ہے کہ انہوں نے خبر روکنے کی کامیاب کوشش نہیں کی۔ جن لوگوں نے قومی سلامتی کے اعلیٰ اختیاراتی اجلاس کی خبریں اخبار نویسوں کو دیں، ان میں حسب منشا ردوبدل کیا، فوج کو ناحق کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی، ان کا کوئی ذکر ہے نہ احتساب، کسی خبر کو شائع ہونے سے نہ روک سکنا کس قانون کے تحت جرم ہے؟ جن افراد پر الزام دھرا گیا ہے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو یقیناً عدالت ان کی بے گناہی پر مہر تصدیق لگانے پر مجبور ہو گی اس لئے کہ انہوں نے کسی بھی مروجہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اصل ملزموں کو پہلے ہی استثنا دیا جا چکا ہے، تو پھر سایوں کے پیچھے بھاگنے کا فائدہ؟
بڑے ملزم حقائق تلاش کرنے والے کمیشن کی حد سے باہر نکال لئے گئے، تو پھر باقی کون سی حقیقتیں تھیں جن کو کھوجنے کے لئے کمیشن تشکیل دیا گیا؟ ایسے اپاہج کمیشن کی سفارشات کی اہمیت ہی کیا ہے؟ قوم اِدھر اُدھر تانکا جھانکی کرنے کی بجائے سودا کاروں پر تبریٰ کرے۔ ان حالات میں ’’ٹویٹ‘‘ کی اہمیت غبارہ پھوڑنے سے زیادہ نہیں، یہ دھماکہ محض غبارے کی ہوا خارج ہونے کا تھا، اس کی وجہ سے کوئی نقصان ہونے یا کسی کو نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ ہاں دھماکے کی آواز کے اطراف میں فرضی تباہ کاریوں کی تلاش سے اگر کچھ دنوں کے لئے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ بڑھ سکتی ہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اس کا اضافی فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند دنوں کے لئے اس شور میں عمران خاں کی آواز مدھم سنائی دے گی۔ چوہدری نثار علی وزیر داخلہ کا معاملہ سب سے عجیب تر ہے۔ وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، وہ باخبر بھی ہیں، اظہارِ مطلب اور ابلاغ کے ماہر بھی۔ ان دنوں وہ صاف گوئی ترک کر کے دونوں طرف بلکہ دو کشتیوں میں سوار رہنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ جسم پر چھینٹا پڑے نہ کپڑے گیلے ہوں۔
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
اگر آپ کو کسی نے پیچھے دھکیلا یا ایک طرف کر دیا تو اس میں مہربانوں کا کچھ قصور نہیں گلے شکوے ان سے کریں جنہوں نے کام نکل جانے کے بعد ’’چوبِ مسجد‘‘ کو ایک کونے میں لگا دیا کہ ’’چوبِ مسجد‘‘ سوختنی نہ فروختنی۔ نواز شریف کے پاس اتنا وقت کہاں بچ رہا ہے کہ وہ روز روز روٹھنے والوں کو مناتا پھرے۔ خزانے والے ہی ٹھیک ہیں بھلا مشکل میں سارا کچا چٹھا کھول دے مگر روز کا روٹھنا۔
رکی رکی سی یہ آزردگی قیامت ہے۔ کیا ادائیں ہیں تیری کہ کھل کے روٹھ نہ من، اب چپکے بیٹھ رہنے میں آبرو ہے۔ بھلے دنوں کو یاد کرنا، برے دنوں کا انتظار کرنے سے بہتر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وزراء اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں اور لہجہ بھی، جو آتش زنی سیالکوٹ کے خواجہ کے ذمہ تھی، آج راولپنڈی کے راجپوت نے اختیار کر لی ہے۔
دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
کہتے ہیں کوا ہنس کی چال چلنے میں اپنی بھی بھول لیتا ہے۔ اپنی اصل پر چلتے رہنا ہی غنیمت ہے، اب نئی چالیں سیکھنے کا زمانہ ہے، عمر نہ ہی زیادہ وقت بچ رہا ہے۔ اچانک صدمہ پہنچے یا گہری چوٹ لگے تو اکثر اوقات آنکھوں میں اندھیرا اتر آتا ہے۔ یہاں تو ایک وقت میں دو دو صدمے ہیں اوپر سے عمران خان کی گہری چوٹیں۔ صدمے کی کثرت، چوٹ کی گہرائی سے ذہن و نظر یوں متاثر ہوئے کہ ’’مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے‘‘۔ ہندوستانی صحرا کے صوفی بھگت کبیر نے کہا تھا کہ؎
رنگی کو نارنگی کہے، بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو یہ گاڑی کہے، دیکھ کبیرا رویا
ایسے دھندلکے میں عمران خاں نے اسلام آباد پریڈ گرائونڈ میں گرانڈیل ہاتھی لاکھڑا کیا۔ نابینائوں کے ترجمان پورا ہاتھی دیکھ تو سکتے نہیں، ٹٹولنے میں بیان الگ الگ ہیں بلکہ متضاد بھی۔ اتنا نہ ہو سکا کہ ایک بینا (آنکھوں والا) ہی پکڑ لاتے اور اسے کہتے کہ گوگل سے جلسہ ’’سپاٹ‘‘ کرو۔ زوم کر کے ایک ایک بندہ شمار کر لیتے۔ پھر اس میں سے ایک صفر کم کر کے ’’باس‘‘ کو بھی خوش کرتے خود پر بھی حقیقت روشن رہتی۔ ایک صفر کم کرنے کا مشورہ اس لئے کہ افراتفری کے اس دور میں ’’دس پر تقسیم کرنا، شاید انہیں ازبر نہ ہو‘‘۔
دیہاتی کی طرف طنزیہ نظریں اٹھیں تو بولا، ہمارا بزرگ کچھ پاگل ہو گیا ہے، لوگوں کے کپڑے، جوتے جو ہاتھ لگے اٹھا کے گھر لے آتا ہے۔ پوچھا کبھی گھر کی چیزیں بھی باہر چھوڑیں، بولا نہیں، ابھی اتنا پاگل نہیں ہوا۔ بھگت کبیر ہوتے تو ضرور اس پر گرہ لگاتے
جلسے کو یہ جلسی کہے، ہے جلسی اب جلسہ
صدمہ بڑا، چوٹ گہری ہوش و نظر ٹھکانے نہ رہے۔ پھر بھی اوکاڑہ کے بِل میں گھسی چوہیا شیر نظر آتی ہے اور پریڈ گرائونڈ کا ہاتھی انہیں گلہری نظر پڑتا ہے۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

.
تازہ ترین