• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے، پاناما کیس کے مقدمے کی سپریم کورٹ میں سماعت اور اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مدعی علیہان کچھ سائنس دانوں، کچھ ماہرین، اور الیکٹرانک میڈیا نے جو حکمت عملی تسلسل سے اپنائی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ تو ملکی قوانین کے تحت ملک سے ناجائز دولت کے باہر جانے کا سلسلہ رکا ہے اور نہ ہی آنے والے برسوں میں لوٹی ہوئی دولت کا قومی خزانے میں واپس آنے کا کوئی امکان ہے۔ اس مقدمے اور حکومت مخالف احتجاجی جلسوں کا مقصد صرف سیاسی مفادات کا حصول نظر آتا ہے جبکہ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور قابل احترام اداروں کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف نے عدالت عظمیٰ میں جو مقدمہ دائر کیا تھا اگر اس کا مقصد موثر احتساب، لوٹی ہوئی دولت کی قومی خزانے میں واپسی اور بدعنوانی پر قابو پانا ہوتا تو اسے پہلے اپنے انتخابی منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں غیر منقولہ جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ بڑھا کر انہیں مارکیٹ کے نرخوں کے برابر کر دینا چاہئے تھا کیونکہ یہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہے۔ واضح رہے کہ جائیداد سیکٹر ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ جنت فراہم کرنے کابڑا ذریعہ ہے۔
تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ صوبوں کو اس اصول پر عمل کرنا چاہئے کہ جس جائیداد کی مالیت کم ظاہر کی جائے اسے قومی ملکیت میں لے لیا جائے۔ ہم عمران خان صاحب سے گزارش کریں گے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اپنے آخری بجٹ میں مندرجہ ذیل تجاویز کا اعلان کیا جائے یہ ایک بڑی قومی خدمت ہو گی اور ساتھ ہی ملک میں حقیقی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بھی۔
(1) یکم جولائی2017سے صوبے میں جائیداد کا ’’ڈسی ریٹ‘‘ مارکیٹ کے نرخ کے برابر کیا جا رہا ہے اس سے وفاق اور صوبے دونوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گا اور وفاق کے پاس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم برائے جائیداد جاری رکھنے کا جواز ختم ہو جائے گا۔
(2) اپنے منشور کے مطابق زراعت پر ٹیکس موثر طور پر نافذ کیا جا رہا ہے۔
(3) اپنے منشور میں کئے گئے وعدے کے مطابق صوبے کی مجموعی داخلی پیداوار کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 5فیصد اور صحت کی مد میں 2.6فیصد مختص کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کو پاناما کیس کے اپنے مقدمے میں سپریم کورٹ سے یہ درخواست بھی کرنا چاہئے تھی کہ اصل مقدمے کی شنوائی سے پہلے قانون اور انصاف کی خاطر مندرجہ ذیل احکامات فوری طور پر جاری کئے جائیں کیونکہ ان کے ضمن میں ملک میں عملاً اختلاف رائے موجود نہیں ہے۔
(1) انکم ٹیکس کی شق 111(4)کی فوری منسوخی کیونکہ یہ ایک مالیاتی این آر او ہے اس شق کی وجہ سے قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ مل رہا ہے۔
(2) ملک میں غیر منقولہ جائیدادوں، گاڑیوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں، اسٹاک ایکسچینج اور حکومتی تمسکات میں لگائے ہوئے کئی ہزار ارب روپے کے ’’ملکی پاناماز‘‘ کی مستند دستاویزات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ان سب کو قانون کے دائرے میں لا کر حکومتی واجبات اور ٹیکسوں کی وصولی کی جائے جو کہ چند ماہ میں یقیناً ممکن ہے، واضح رہے کہ یہ اثاثے ناجائز دولت سے بنائے گئے ہیں اور انہیں ٹیکس حکام سے خفیہ رکھا گیا ہے۔
(3) مارکیٹ سے بیرونی کرنسی پر خرید کر اگر کوئی شخص بینک میں اپنے بیرونی کرنسی کے کھاتے میں رقوم جمع کراتا ہے تو عام حالات میں اس رقم کو باہر بھیجنے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے۔
اگر سپریم کورٹ ہی ازخود نوٹس لے کر مندرجہ بالا پہلے دونوں امور کے ضمن میں فیصلہ صادر فرماتی توچند ماہ کے اندر ناجائز دولت کا بڑا حصہ قومی خزانے میں واپس آجاتا، ناجائز دولت کی ملک سے باہر منتقلی کا سلسلہ سست ہو جاتا کہ ناجائز دولت کو قانونی تحفظ ملنا بھی آسان نہ رہتا اور بہت سے بدعنوان عناصر کی نشاندہی بھی ہو جاتی۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد بھی وکلا برادری اور مختلف بار کونسلوں نے قومی مفادات سے متصادم ان معاملات کے ضمن میں رسمی مطالبہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا کیونکہ ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت 2005میں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست بحران پیدا کیا گیا تھا۔ اس بحران کے ذمہ داراوں کا تعین کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر کی ادائیگی کر کے ایک مشہور امریکی فرانسک کمپنی کو پاکستان بلوا کر اس بحران کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کمپنی کی رپورٹ بے نتیجہ اور بے معنی رہی حالانکہ دستاویزی ثبوت موجود ہے۔
اب سے ایک برس قبل ’’پاناما لیکس، کیا کچھ نکلے گا؟‘‘ کے عنوان سے ہم نے لکھا تھا کہ متعدد پیچیدگیوں کی وجہ سے تحقیقاتی کمیشن کے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے امکانات روشن نہیں ہیں (جنگ21 اپریل 2016) ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت تشکیل دی جانے والی نیم فوجی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ عملاً بے نتیجہ رہے گی۔ اگر اس نے ذمہ داری کے ضمن میں کوئی بھی حتمی رائے دی تو وہ متنازع رہے گی کیونکہ اس رائے کے مستند ثبوت شاید پیش نہ کئے جا سکیں گے۔
اب سے 10برس قبل سپریم کورٹ نے بینکوں کے قرضوں کی معافی کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور اپنے ہی ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں 2011میں ایک کمیشن بنایا تھا۔ اس کمیشن نے جنوری 2013میں اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کر دی تھی لیکن 4سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہ رپورٹ سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے ہم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو 14دسمبر 2009کو ایک تفصیلی خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک کا اکتوبر 2002میں جاری کردہ قرضوں کی معافی کا سرکلر نمبر 29غیر قانونی غیر منصفانہ اور پارٹنر شپ ایکٹ سے متصادم ہے اور اس سے بدعنوان عناصر نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ہم نے اس خط میں استدعا کی تھی کہ قرضوں کی معافی کے کیس میں ہمارے اس خط کو بھی ریکارڈ میں رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے 24دسمبر 2009کو کہا تھا کہ عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا یہ سرکلر قانون سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا (1) قرضوں کی معافی کے اس سرکلر سے بڑے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ (2) قرضے معاف کروا کر دولت بنائی اور دولت ملک سے باہر پہنچائی گئی ہے (3)قومی دولت کو واپس لانے کے لئے عدالت کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ پاناما کیس میں بھی قومی دولت کو ناجائز طریقے سے باہر لے جانے کے الزام کی باتیں ہو رہی تھیں مگر قرضوں کی معافی کا مقدمہ 10برس سے زیر التوا ہے جبکہ قرضوں کی معافی کے سرکلر کے غیر قانونی ہونے کا فیصلہ دو سماعتوں میں ہی ممکن ہے۔ ہم اس ضمن میں دو مزید باتیں عرض کریں گے۔ اول اگر ملک سے غیر قانونی طور پر باہر بھیجی ہوئی رقوم کے لئے ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا جاتا ہے تو یہ ایک قومی المیہ ہو گا اور دوم:اگر عدالت عظمیٰ نے قرضوں کی معافی کے مقدمے کا جلد فیصلہ نہ کیا تو ان قرضوں کی وصولی کا امکان ختم ہو جائے گا اور آنے والے برسوں میں بنک 500ارب روپے کے مزید قرضے معاف کر سکتے ہیں۔ جو انہوں نے پہلے ہی ’’نقصان‘‘ کی مد میں دکھلائے ہوئے ہیں۔

.
تازہ ترین