• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے بحیثیت صدر سو دن مکمل کئے تو خود بخوداِن کی انتخابی مہم کے دن یاد آگئے۔ صدارتی مباحثوں اور ٹی وی شوز میں انہوں نے ایسا بہت کچھ کہا تھا جس کی گیارہ ستمبر کے و اقعات سے پہلے کسی امریکی صدارتی امیدوار سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ لیکن مہم کے دوران بارہا محسوس کیا گیاکہ عالم گیریت (Globalization)کے جدید تصورات بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریر اور بیانات کا سب سے بڑا نشانہ بن رہے ہیں۔ کم و بیش اِن کا ہر جملہ کسی نہ کسی سطح پرعالمی امن، سفارت کاری، قوموں کے درمیان قربت، امریکی عوام میں ہم آہنگی اور بڑی طاقتوں کے درمیان ناگزیر اَمن کو چیلنج کرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ وجوہات واضح ہیں،
اِس مہم کے دوران ٹرمپ پر نسل پرستی کی چھاپ لگی کیوں کہ میکسیکو کے باشندوں اور لاطینی امریکیوں کی آمدو رفت اِنہیں پسند نہیں۔ امریکہ میں برسوں سے بسے سیاہ فام افریقی اور ہسپانویوں سے بھی وہ سخت ناخوش رہے۔ اُن پر مذہبی تفریق پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا گیاکیوں کہ وہ عرب اور مغرب میں بسے مسلمانوں کو تنقیدکا نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے چین پر عام امریکیوں کا روز گار چھین لینے اور نیٹو کے یورپی ممبران پر انتہائی سستے داموں معیار ی تحفظ حاصل کرنے کا الزام بھی لگایا۔وہ ایک سے زیادہ بار زَن بیزاری (Misogyny)کے مرتکب قرار پائے! خواتین کے بارے میں اُن کے خیالات کسی طور قابل قبول نہیں تھے۔
پھر مہم ختم ہوئی، انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ سچ مچ امریکی صدر منتخب ہوگئے۔ لیکن ابتدائی سو دن مکمل ہونے کے بعد لگتا ہے کہ انہیں اپنے سیاسی دعوئوں اور وعدوں کو پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ اِن سو دنوں میں اِن کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر ز کی تعداد 30ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ وہ اَب فرینکلن روزویلٹ کے بعد اِس مدت میں سب سے زیادہ احکامات جاری کرنے والے امریکی صدر بن چکے ہیں۔
شام اور افغانستان ٹرمپ انتظامیہ کی اِس جلد بازی اور جارحانہ عزائم کے اوّلین اہداف ثابت ہوئے۔ پہلے شام پر میزائل داغے گئے اور پھر افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں پر دنیا کا سب سے بڑا غیر جوہری بم گرا دیا گیا۔ اُدھر مشرق بعید میں پرانے دشمن شمالی کوریا کو دھمکانے کے لئے جاپان اورچین سے تعلقات استوار کرنے میں بھی پیش رفت ہوتی دکھائی دی۔یوں امریکیوں کا روز گار چھیننے والے چین کے اچانک اتنا قریب ہوجانا عالم گیریت کے خلا ف ٹرمپ کی اپنی پالیسی کی واضح نفی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے جوہری اثاثوں اور انتہا پسندی پر بارہا عدم اطمینا ن کا اظہار کرتے رہے۔ لہذا خدشہ تھا کہ صدارت سنبھالتے ہی وہ پاکستان کے خلاف کچھ جارحانہ احکامات جاری کرسکتے ہیں۔لیکن اس عرصے میں انتہائی غیر متوقع طور پرپاکستان کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے رویے میں کوئی سختی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اِن سو دنوں میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں نے اُنہیں پاکستان سے متعلق بنیادی اور اہم نوعیت کی بریفنگ دے ڈالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1958سے لیکر اب تک مختلف دفاعی معاملات میں پاکستان کی امریکہ سے قربت ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ لہذا اِس سے متعلق تمام تر حساسیت سے آگاہ رہنا ہر نئے امریکی صدر کے لئے ضروری ہو تا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایک بار پاکستانی سفیر سے رابطے کے سوا، دو طرفہ معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے فی الحال کوئی بڑی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دی۔ اگرچہ سفیر سے رابطے کو حافظ سعید کی نظر بندی سے جوڑا گیا لیکن بظاہر اِس کے بعد ہی حالات بدلے اور فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کانام دشمن یا امریکہ مخالف ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔البتہ یہاں ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان میں سب سے بڑے غیر جوہری بم کے گرائے جانے کے بعد پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا: خاص طور پر ملک میں موجودانتہاپسنداور غیر جمہوری عناصر کی سرگرمیوں کے معاملے میں!
ٹرمپ انتظامیہ کے بدلتے ہوئے روّیوںکا ایک اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان غیر متوقع طور پر اُن مسلم اکثریتی ملکوں میں بھی شامل نہیں جن پر امریکہ نے سفری پابندی عائد کی ہے۔ یہ پابندی ٹرمپ کے جاری کردہ 30میں سے دو ایگزیکٹوآرڈرز کے تحت لگائی گئی تھی۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ عدالتی تحفظات کے باعث ٹرمپ انتظامیہ اِس سفری پابندی پر عمل در آمد کرانے سے قاصرہے۔ مہم کے دوران ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ کئی عزائم اِس وقت عدالتی کارروائیوں، کانگریشنل ووٹنگ اور فنڈنگ سے متعلق پیچیدگیوں کے سبب شرمندہ ِ تعبیر نہیں ہو پا رہے ہیں۔ خاص طور پر میکسیکو کی سرحد پردیوارکی تعمیر کے لئے اِن کا تاریخی جوش بھی فنڈز سے جڑے مسائل کی وجہ سے ٹھنڈا پڑا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ٹرمپ کی شمالی امریکہ کے تجارتی معاہدے سے دستبردار ہونے کی خواہش بھی پوری ہوتے دکھائی نہیں دے رہی ہے: وہ فی الحال سمجھوتے پر نظر ثانی کررہے ہیں۔ کچھ ملتی جلتی صورتحال اوباما انتظامیہ اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری سمجھوتے کی بھی ہے۔ انتخابی تقاریر میں ڈونلڈ ٹرمپ اِس معاہدے کے خلاف بولتے نہیں تھکتے تھے لیکن دلچسپ بات یہ کہ وہ اِن دنوں اپنے اس فیصلے پر بھی نظر ثانی کرنے پر مجبور ہیں۔
ایران بلا شبہ خطے کا اہم ملک ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ا س تاریخی معاہدے کے طفیل ایران ایک طویل سفارتی کنارہ کشی کے بعد بین الاقوامی سیاست میں ایک بار پھر اپنا فعال کردار ادا کرسکے گا۔ اگر ٹرمپ مصر اور سعودی عرب سے تعلقا ت بہتر کرنے کے ارادوں پر ثابت قدم رہے تو اِس معاہدے پر اِن کی یہ نظر ثانی دور رَس نتائج مرتب کرسکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اِن ہی عالمی مسائل اور ان سے متعلق ناگزیرتقاضوں کے سبب آخر کار عالم گیریت اور اس پر یقین رکھنے والی جدید دنیا کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔ اب وہ جانتے ہیں کہ واشنگٹن میں بیٹھے بیٹھے امریکیوں کے ذہنوں میں سمایا شمالی کوریا، داعش اور بین الاقوامی اِنتہا پسندوں کا خوف چٹکی بجا کر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگراِن سو دنوں میں اِن پر یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ اب ہر ملک یا خطے کا تحفظ دنیا کے وسیع تر امن اور تحفظ سے جڑا ہے تو وہ یقیناً اپنی قوم کو درپیش ہر حقیقی اور نفسیاتی خطرے پر قابو پا سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین