• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لائل پورکے محمد صدیق کی میٹرک میں معمولی سیکنڈ ڈویژن تھی۔ مگرہاکی اور کبڈی کا بے مثل کھلاڑی تھا اور یہی کمال اُسے گورنمنٹ کالج لاہور تک لے آیا۔ جہاںاس کا داخلہ اسپورٹس مین کے طورپرہوا تھا۔ انٹر میں محمد صدیق کی تھرڈ ڈویژن آئی تو اُسے کالج میں رکھنے یا نہ رکھنے کا سوال اٹھا۔ پرنسپل اشفاق علی خان اس کے حق میں تھے کہ کھلاڑی بہت اچھا ہے۔ جبکہ بعض اساتذہ اس کی تعلیمی پسماندگی سے نالاں تھےکہ بی اے میں چل نہ پائے گا۔ گومگو کی یہ کیفیت یوں ختم ہوئی کہ ایک صبح محمد صدیق پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوا اور ایک لفافہ ان کی میز پر رکھتے ہوئے کہا ، سر! یہ خط آپ کا کام آسان کردے گا۔ جو فی الحقیقت محمد صدیق کا تقررنامہ تھا۔ پولیس کے محکمے نے اس ابھرتے ہوئے اسپورٹس مین کو بطور اے ایس آئی بھرتی کر لیا تھا۔ پرنسپل سمیت سبھی خوش تھے اور موصوف کو خوشدلی سے حوالہ پولیس کر دیا گیا۔ پھر تعلیم مکمل کر کے ہم فارن سروس میںآگئے اور محمد صدیق پنجاب کے مختلف اضلاع میں تعیناتیاں بھگتاتے رہے۔ اور ہمارا اُن کے ساتھ کوئی رابطہ نہ تھا۔ کالج کے بعد میری ان سے ملاقات 2001ء کے اکتوبر کی کسی تاریخ کو فارن آفس میں ہوئی تھی۔ وہیں ملازم اسٹینو ٹائپسٹ بیٹے کی سفارش لیکر آئے تھے۔ جس کی پوسٹنگ غالباً نیپال ہو رہی تھی اور موصوف چاہتے تھے کہ برطانیہ ہو جائے، کیونکہ ڈاکٹروں نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کے علاج کیلئے لندن کے کسی اسپتال کا بتایا تھا۔ بے شک انہیں پہچاننے میں مجھے دشواری ہوئی تھی۔ ایک تو بیچ میں پڑنے والی کم و بیش تین دہائیاں اور دوسرے موصوف کی بیماری ، جس نے ان کا حال حلیہ یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ حال احوال کھلا، تو پتہ چلا کہ موصوف محکمے میں خاصے کامیاب جا رہے تھے۔ انسپکٹر ہو چکے تھے اور ڈی ایس پی شپ سامنے تھی کہ ایک واقعہ نے کائنات بدل کر رکھ دی۔ ان دنوں لاہور میں تعینات تھےکہ کسی بڑے آدمی کے گھر میں چوری ہو گئی۔ اوپر سے پریشر آیا، تو جیسا کہ چلن ہے، تھانہ انچارج کو چور پکڑنے اور مال برآمد کرنے کیلئے 48گھنٹے کاالٹی میٹم دیا گیا۔ برآمدگی تو مسئلہ نہ تھی، چوری شدہ مال سے بھی بڑھیا آئٹمز پیش کئے جا سکتے تھے، البتہ کسی بے گناہ پر ہاتھ ڈالنے کو محمد صدیق کا دل نہیںمان رہا تھا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ایسی گرفتاریاں کس طرح کی جاتی ہیں۔ اسی شش و پنج میں 24گھنٹے گزر گئے اور جب کوئی چارہ نہ رہا تو ناکے پرمتعین عملہ کو حکم دیا کہ رات بارہ بجے کے بعد کوئی سے تین بند ےپکڑ لائو اور بندکر دو، حکم کی تعمیل ہوئی اور جو تین ہتھے چڑھے، ان میں ایک راج ایک مستری اور ایک مزدورشامل تھا جو دن بھر کی مشقت کے بعد گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ کامیاب چھاپے کی خبر حکام بالا کو بھی پہنچ گئی۔ یہ ایک معمول کی کارروائی تھی، جو محمدصدیق بیسیوں بار پہلے بھی ڈال چکا تھا، کیونکہ افسروں کی تسلی اور فائلوں کا پیٹ بھرنے کا سب سے آسان طریقے یہی تھا اور یہ کوئی راز بھی نہیں تھا۔ مگر اس شب محمد صدیق نہ جانے کیوں بے چین ہو گیا تھا اور حوالات میں بند ملزمان اس کے حواس پرچھاگئے تھے۔ اپنا دھیان اِدھر اُدھر کرنے کی اس نے پوری کوشش کی، مگر بے سود، بے کلی اس قدر بڑھ گئی کہ اُسے دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اور وہ تقریباً بھاگتا ہوا حوالات کے سامنے جا کھڑا ہوا اور چلایا، سچ سچ بتائو تم کون ہو؟ وہ مکین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے اور بولے،
جناب! ہم بے گناہ، مگر اللہ کی لاوارث مخلوق، کوئی آگے نہ پیچھے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کس جرم میں پکڑے گئے۔ صبر شکر کئے بیٹھے ہیںکہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔ البتہ ہمارا یہ ساتھی سخت پریشان ہے۔ بوڑھی اور اپاہج ماں گھر پر اکیلی ہے۔ ضرورت کی چیزیں پاس رکھ کر ہر صبح باہر سے تالہ لگا آتا ہے، جسے واپس جا کر کھولتا ہے۔ اسے اپنا تو غم نہیں، مگر سخت بے کلی ہے کہ ماں کا کیا بنے گا! وہ تو بھوکی پیاسی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گی۔ میں نے نظراٹھا کر دیکھا تو محمد صدیق کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے۔ بولے، ریاض بھائی، وہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اپنےہاتھوں حوالات کا دروازہ کھولا اور تینوں کورہا کر دیا۔ اور اگلے ہی روز بڑے صاحب کا فون آنے سے پہلے پہلے میرا استعفیٰ ان کی میز پر پہنچ چکا تھا۔ اور جب بات کھل گئی تو محکمے نے میرے استعفیٰ کو ریٹائرمنٹ میں بدل دیاتھا۔ محمد صدیق اب دنیا میں نہیں ہے، بیماری جان لیوا ثابت ہوئی تھی۔
دفعتاً خیال آیا کہ محمدصدیق کی یہ داستان کتب سیرتؐ میں درج ایک واقعہ سے کس قدر مماثلت رکھتی ہے۔ آپؐ نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کہ تین مسافر کہیں جا رہے تھے۔ تیز بارش برسنے لگی تو بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لے لی کہ تھمے گی تو پھر سے سفر پر روانہ ہو جائیںگے۔لیکن کرنا اللہ کایہ کہ جونہی وہ غار میں داخل ہوئے ایک بھاری پتھر اوپر سے لڑھکتا آیا اور غار کا منہ بند کر دیا۔ اب تو وہ بیچارے بہت گھبرائے ۔ پتھر اس قدر بھاری تھا کہ ہلانے یا ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا اور موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ سخت پریشانی کے عالم میں ایک نے کہا کہ دوستو بہت برے پھنس گئے، اب تو صرف دعا ہی کام آ سکتی ہے۔ دوسرا بولا ، مگر دعا مانگی کیسے جائے؟ تیسرا گویا ہوا کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ ہم میںسے ہر کوئی اپنی کسی نیکی کاواسطہ دیکر اللہ کے حضور گڑ گڑائے کہ ہماری مشکل آسان ہو۔
چنانچہ پہلے مسافر نےاپنی کسی نیکی کا ذکر کیا تو پتھر تھوڑا سا سرک گیا۔ دوسرے نے بھلائی کے اپنے کسی کام کا ذکر کیا، تو پتھر مزید ایک طرف کو ہوگیا۔ مگر باہر کھلنے کی اب بھی کوئی صورت نہ تھی، اس پر تیسرے مسافر نے اپنی داستان شروع کی کہ میںچرواہا ہوں۔ گزارے کیلئے بکریاں پال رکھی ہیں۔ میرے ماں باپ بوڑھے ہیں۔ شام کو ریوڑ لیکر لوٹتا ہوں تو سب سے پہلے ان کی خدمت میںحاضر ہوتا ہوں۔ انہیںتازہ دودھ پلاتا ہوں اورپھر اپنے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ ایک دن واپسی میں کچھ دیر ہو گئی۔ دودھ کا برتن لیکر والدین کے کمرے میں گیا تو وہ سو چکے تھے۔ میں دودھ لئے ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ جگاتا اُس لئے نہیں تھا کہ ان کی نیند خراب ہو گی اور ہٹتا یوں نہیںتھا کہ نہ جانے کس وقت بیدا ر ہوں اور دودھ مانگ لیں، اور یونہی پوری رات بسر ہوگئی۔ قصہ بیان کرنے کے بعد اس شخص نے اللہ کے حضور دعا کی کہ یا باری تعالیٰ ! اگر میرا یہ فعل تجھے اچھا لگا، تو اس کے صدقے آج ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ غار کا منہ مکمل کھل گیا اور وہ تینوں بخیریت باہر نکل آئے۔
تازہ ترین