• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام میں صدر بشار الاسد کی سرکاری فوج اور باغیوں کے درمیان طویل عرصہ سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے ترکی ایران اور روس کی کوششوں سے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں امن مذاکرات کا آغاز ایک خوش آئند پیش رفت ہےجن کی کامیابی کےلئے اسلامی ملکوں کے علاوہ بڑی طاقتیں بھی سرگرم ہیں۔اس خانہ جنگی میں جو 2011سے شروع ہونے والی’بہار عرب‘کشمکش کا حصہ ہے۔ اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ روس اس لڑائی میں سرکاری فوج اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دے رہا ہےجبکہ امریکہ کی ہمدردیاں آزاد شامی فوج کے ساتھ ہیں جو بشارالاسد کی مخالف اپوزیشن پارٹیوں اور مختلف نسلی وجہادی تنظیموں کا عسکری ونگ ہے۔ باغی فوج نے حلب اور جنوبی شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے اور بڑی طاقتوں کے ملوث ہونے کے بعد کوئی بھی فریق اپنے مخالف کو شکست فاش دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ آستانہ مذاکرات میں شریک شامی اپوزیشن نے اپنے تحفظات دور نہ ہونے پر بات چیت کا بائیکاٹ کر دیا تھا مگر رو سی صدر پیوٹن اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہو رہےہیں۔پیوٹن ،ٹرمپ بات چیت میں شام میں خانہ جنگی اور خونریزی کے خاتمے پر اتفاق ہو گیا ہے مگر فریقین کو جنگ بند کرنے کےلئے کوئی پیغام نہیں دیا گیا۔اس کی بجائے آستانہ مذاکرات کے نتائج کا انتظار کیا جائے گا۔ پیوٹن نے ٹرمپ کو جولائی میں ہیمبرگ(جرمنی)میں 20ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس کے موقع پر براہ راست ملاقات کی دعوت دی ہےجو شام میں خانہ جنگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔بہار عرب مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں آمرانہ حکومتوں کے خاتمے اور جمہوریت کےلئے جدوجہد کی علامت ہے مگر اس کے نتیجے میں مختلف عرب ملکوں میں قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے اس کا خاتمہ عالم اسلام کے لئےانتہائی پریشان کن ہےاور مذاکرات ہی اس مسئلے کا واحد موثر حل ہیں۔ توقع ہے کہ آستانہ مذاکرات سے اس سمت میں بہتر پیش رفت ہو گی۔

.
تازہ ترین