• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت جگ ہنسائی ہو چکی، حل ایک ہی ہے، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ شائع کر دی جائے۔ حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اور انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے کون صحیح ہے کو ن غلط۔ ایک بہتر فورم پارلیمان بھی ہے جہاں اس طرح کے معاملات پر غور و فکر ہونا چاہئے۔
جگ ہنسائی تو اس دن سے شروع ہو گئی تھی جب ایک خبر کو غیر ضروری سنجیدگی سے لیا گیا۔ اس کا ایک پسِ منظر تھا جو اب کوئی راز نہیں رہ گیا۔ اُس وقت کے فوجی سربراہ اور منتخب حکومت کے درمیان کشیدگی تھی۔ وجوہات بھی تھیں، مگر ان پر اب کیا گفتگو کی جائے۔ توسیع ملی نہ ایوب خان والا عہدہ۔ اس کشیدہ ماحول میں وہ خبر شائع ہوئی جس کی بنیاد پر کہا گیا، قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ شبہ سول حکومت کے کچھ ارکان پر تھا، یا شاید اُن سے بھی اوپر والوں پرکہ انہوں نے اندرونِ خانہ ہونے والی گفتگو لیک کردی۔ اس کی تحقیقات کے لئے ایک مشترکہ کمیٹی بنائی گئی جس کی رپورٹ اب آ گئی ہے، کافی تاخیر کے بعد۔ اس کمیٹی نے ڈان کے ایڈیٹر اور رپورٹر سمیت کئی لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔ کچھ سے تو کئی گھنٹے تک۔ ایک آدھ بات پر، باخبر ذرائع کا کہنا ہے، بہت اصرار بھی کیا گیا۔ فلاں کا نام لے دو۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ کمیٹی کے علاوہ بھی کچھ لوگوں نے ایک مخصوص فرد کا نام لینے کی ترغیب بھی دی۔ ساری کوششوں کے بعد ایک رپورٹ تیار ہوئی جو وزیرِاعظم کو پیش کر دی گئی۔ اس رپورٹ میں، اب تک کی اطلاعات کے مطابق، خبر لیک کرنے کی ذمہ داری کا تعین البتہ نہیں ہو سکا۔ یوں ایک طرف تو یہ سوال باقی رہ گیا کہ پھر اس کمیٹی کی ضرورت کیا تھی۔ اور دوسری طرف وہاں سے جگ ہنسائی کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔
جو کچھ ہو رہا ہے، افسوسناک ہے، کم سے کم الفاظ میں۔ ریاستی اداروں کے درمیان مفاہمت ہونی چاہئے، اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہئے، اسے پروان چڑھانے کی ضرورت کا احساس ہونا چاہئے۔ مگر یہ ہونہیں رہا۔ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ماضی میں کم ہی ہوا ہو گا۔ یوں کب ہوا ہے کہ ریاست کے ادارے ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہوں؟ ایک طرف ایک منتخب حکومت ہے اور دوسری طرف ایک ادارہ ، جس پر ملک کے دفاع کا انحصار ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔ اگر دونوں کو احساس ہو تو۔ اور ایسا بھی کب ہوا ہے کہ دو اداروں کے درمیان مراسلت نام نہاد سوشل میڈیا کے ذر یعہ ہوئی ہو؟ ایک دوست نے درست کہا یہ اینٹی سوشل میڈیا ہے۔ اس میڈیا پر جس کا جو دل چاہے وہ بول دے، لکھدے، سچ یا جھوٹ۔ کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں کہ اس میڈیا پر لکھے گئے سچ یا جھوٹ میں تمیز کی جا سکے۔ یوں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میڈیا پر تو آپ اپنے قریبی عزیز سے بھی ذاتی گفتگو نہیں کر سکتے، سرکاری اور حکومتی معاملات تو رہے ایک طرف۔ ٹویٹ پر کی گئی بات چیت صرف دو اداروں یا افراد کے درمیان نہیں رہتی بلکہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ان میں دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی ہوں گے۔ کیا سرکاری معاملات اس طرح طشت از بام کئے جانے چاہئیں؟ کیا دو ریاستی ادارے اس طرح بات کر سکتے ہیں؟ حکومتی اور سرکاری اداروں کے درمیان بات چیت کا ایک طے شدہ طریقہ ہوگا، کسی کتاب میں لکھا بھی ہوگا۔ سب اسی طریقہ پر عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ اور اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ آپ جب طے شدہ طریقہ کار سے روگردانی کرتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، دانش کا تقاضا ہے کہ اس سے گریز ہی بہتر ہے۔ یہ اصول ہر معاملے میں درست ہے۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والا نوٹیفکیشن شاید جلد بازی میں جاری کیا گیا۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار بھی شاید حقائق سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، اس لئے انہوں نے اس نوٹیفکیشن کے اجرا پر حیرانی کا اظہار کیا اور اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کی وزارت نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والا سرکاری خط کس طرح اخبارات کے ہاتھ لگا؟ ظاہر ہے کسی نے دیا ہوگا۔ یہ ایک اور لیک تھی غالباً، مگر اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کا جواب جس طرح ایک ٹویٹ کے ذریعہ دیا گیا، جس طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے، اس کے بارے میں کم سے کم یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے کام میں جس احتیاط کی ضرورت درکار تھی اس کا خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ یہ کہیں کہ نظر انداز کیا گیا تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ یوں ہوتا نہیں ہے۔ ایک ادارے کی طرف سے ٹویٹ کے ذریعہ بیانات جاری کرنا اور بات ہے اور وزیراعظم کے احکامات کو مسترد کرنا اور وہ بھی ان الفاظ میں اور بات، اور وہ بھی ایک میجر جنرل کی سطح کے افسر کی طرف سے، ان الفاظ میں کہ نوٹیفیکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں تو صرف تین لفظ استعمال ہوئے۔ مانا کہ بعض حلقوں کا یہ خیال کہ ٹویٹ کو اعلیٰ سطح کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا درست بھی ہو سکتا ہے۔
حکومت پر بھی حالات خراب کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خبر کس نے شائع کروائی، یہ بات الگ رہی۔ کبھی نہ کبھی تو پتا چل ہی جائے گا۔ مگر معاملات سے، اوراس طرح کے انتہائی سنجیدہ معاملات سے اس طرح نہیں نمٹا جاتا۔ اگر یہ نوٹیفکیشن وزارتِ داخلہ ہی کو جاری کرنا تھا تو ایوانِ وزیراعظم کو حکم نامہ جاری کرنے کی کیا جلدی تھی؟ اور اسے اخبارات کو فراہم کرنے کی بھی؟ کیا امور مملکت اس طرح چلائے جاتے ہیں؟ اور اس تحریر کے لکھے جانے تک، وزارتِ داخلہ نے اپنا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ ہو سکتا جب تک یہ تحریر شائع ہو اس طرف سے بھی کچھ سامنے آجائے۔ مگر کیا وزارت داخلہ کو اتنی مزید تاخیر زیب دیتی ہے؟ خاص طور پر اِس صورتِ حال میں جب ایک ادارے اور سول حکومت کے درمیا ن دوبارہ وہ کشیدگی پیدا ہوگئی ہو جس کے بارے میں گمان تھا کہ راحیل شریف کے جانے کے بعد وہ ختم ہو گئی ہے؟
اس کشیدگی میں نقصان پوری قوم کا ہے، پاکستان کا ہے۔ ذرا آس پاس نظر دوڑائیں کیا ہو رہا ہے؟ مشرقی سرحد پر بھارت اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئے دن لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے گولہ باری کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آرہی۔ خود ملک کے اندر حالات بہتر ضرور ہوئے ہیں مگر ابھی شاید بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی بالکل جڑ سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ فوج اب بھی کئی جگہ مصروف ہے۔ اُسے قوم اور حکومت کی حمایت درکار ہے، بھارت سے نمٹنے کے لئے بھی اور دہشت گردی ختم کرنے کے لئے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب حکومت اور فوج یکسو ہوں۔ کیا اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے؟ یہ تو سامنے کی بات ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے، سوائے ان کے جنہیں دراصل سمجھنا چاہئے۔

.
تازہ ترین