• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منگل 2مئی کو اسلام آباد میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کے ہونے والے اجلاس سے نہ فقط تینوں چھوٹے صوبوں مگر خاص طور پر سندھ اور اس کے بڑے شہر کراچی کے عوام کی کافی امیدیں وابستہ تھیں مگر افسوس کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا والے نتائج سامنے آئے ہیں۔ د و چھوٹے صوبوں نے اپنے مسائل (سی سی آئی) میں بحث کے لئے حکومت کو ارسال کئے تھےسندھ کو سی سی آئی کے اس اجلاس سے بڑی توقعات تھیں۔ یاد رہے کہ دو تین دن پہلے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ سندھ کو درپیش مسائل اس اجلاس میں زیر بحث لاکر آئین کے مطابق فیصلے کئے جائیں، سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس سلسلے میں کافی مسائل وفاقی حکومت کو ارسال کئے تھے، ان میں خاص طور پر سندھ میں پیدا ہونے والی گیس اور بجلی پر سندھ کے حقوق، نیشنل فاریسٹ پالیسی، ایل این جی کی درآمد پر سندھ کے اعتراضات شامل تھے،اس اجلاس میں نیشنل واٹر پالیسی بھی پیش کی جانے والی تھی اور ساتھ ہی سندھ کا موقف تھا کہ سارے وفاقی اداروں میں آئین کے تحت سندھ کو مناسب نمائندگی دی جائے مگر اس اجلاس میں سندھ نے جو کیس زور دار انداز میں اٹھایا اس کا تعلق سندھ حکومت کے اس مطالبہ سے تھا کہ کراچی شہر کیلئے (کے فور) پروجیکٹ کے تحت 1200 کیوسک اضافی پانی دیا جائے، درحقیقت سندھ حکومت کا یہ موقف ہے کہ جس فارمولا کے تحت اسلام آباد اور راولپنڈی کے لئے اضافی پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اسی فارمولا کے تحت کراچی کو بھی پانی فراہم کیا جائے۔ یہاں میں یاد دلاتا چلوں کہ کچھ عرصے پہلے میں نے اس موضوع پر دو تین کالم لکھے اورر تجویز کیا کہ جس طرح اس تجویز پر غور کیا جارہا ہے کہ بشمول سندھ مختلف صوبوں سے پانی کا خاص کوٹہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے لئے وقف کیا جائے تو اسی تجویز کی طرز پر میں بار بار یہ تجویز دیتا رہا ہوں کہ چونکہ سندھ میں بھی مختلف صوبوں کے کافی لوگ بسے ہوئے ہیں لہٰذا مختلف صوبوں کو پانی کا جو کوٹہ مخصوص ہے اس میں ایک تناسب سے پانی کراچی کے لئے وقف کیا جائے۔ میری تو یہ بھی تجویز رہی ہے کہ کراچی میں تقریباً 30 لاکھ غیر قانونی غیر ملکی رہ رہے ہیں یا تو ان کو واپس اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھیجا جائے یا پھر وفاقی حکومت ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو اپنی ذمہ داری تسلیم کرکے اپنے وسائل سے کراچی کی پانی کی مطلوبہ مقدار فراہم کرے۔ مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سی سی آئی کے اس اجلاس میں ایجنڈے کے کئی آئٹم زیر غور ہی نہیں لائے گئے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وزیر اعظم کے پاس اجلاس کے لئے وقت نہیں تھا کیونکہ انہیں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لئے جانا تھا، وزیر اعظم کے اس رویے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے‘ ابھی کچھ دن پہلے وزیر اعظم کراچی آئے تھے اور یہاں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کراچی کے عوام پر کئی نوازشات کرنے کا اعلان کیا اور جس میں انہوں نے کہاکہ کراچی کی پانی کی ضرورتیں پوری کی جائیں گی مگر وزیر اعظم اس سلسلے میں کوئی اعلان تو کیا کرتے الٹا اس اجلاس میں اس ایشو پر غور ہی نہیں کیا گیا، میری سندھ کے وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ وہ رسمی طور پر اس رویے پر وفاقی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم سے احتجاج کریں۔ ساتھ ہی میں یہ تجویز ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ وہ سندھ اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس فوری طور پر طلب کریں جس میں فقط اس ایشو پر بحث کرکے نہ فقط اس رویے کے خلاف سخت الفاظ میں قرار داد منظور کی جائے اور مناسب ہو تو وزیراعظم کے اس روئیے کے خلاف سندھ بھر میں بھی یوم احتجاج منایا جائے۔ اس مرحلے پر میں خاص طور پر سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ممبران پر زور دوں گا کہ جناب آپ نہ فقط اس سلسلے میں ملک بھر میں عوامی احتجاج کریں مگر آپ کے سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران وزیر اعظم کے اس رویے کے خلاف زور دار قرار دادیں پیش کریں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سی سی آئی کے اجلاس میں کراچی کے لئے اضافی پانی کی فراہمی کے ایشو کو زیر غور نہ لانے کے خلاف نہ فقط ایم کیو ایم مگر پاک سرزمین پارٹی کے انتہائی زور دار بیان سامنے آتےمگر کم سے کم یہ کالم لکھتے وقت ان پارٹیوں کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں آیا، ہوسکتا ہے کہ کل کے اخبارات میں اس سلسلے میں ان کے بیانات نظر سے گزریں۔ یہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ کراچی کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کچھ سیاسی عناصر کراچی کے مسائل کا ذکر محض اپنی سیاست چمکانے کے لئے کررہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ درحقیقت آج کے کالم میں مجھے ویسے بھی کراچی کی پانی کی ضروریات کے بارے میں اپنی کچھ معروضات پیش کرنی تھیں مگر ایک دن پہلے یہ جو ڈویلپمنٹ ہوئی تو سارا کالم اس ایشو پر لکھنا پڑا، اب اس ایشو پر میری جو معروضات ہیں وہ میں آئندہ کے کالم میں پیش کروں گا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دوران میرے علم میں ایک اور ایسی ڈویلپمنٹ آئی ہے جس کے نتیجے میں بھی کراچی کے ساتھ سنگین زیادتی ہوتی نظر آرہی ہے، اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہماری موجودہ حکومت اس بات پر کس حد تک سنجیدہ ہے کہ Sea intrusion کے نتیجے میں کراچی، سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقے خطرے میں ہیں؟ اب چونکہ میرے کالم کی جگہ ختم ہو رہی ہے لہٰذا آئندہ کے کالم میں اس سلسلے میں حاصل شدہ چونکا دینے والی معلومات ’’جنگ‘‘ کے قارئین سے شیئر کروں گا۔

.
تازہ ترین