• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند نوکری پیشہ افراد، کاروباری منافع خوروں اور پیشہ ور سیاستدانوں کی بجائے کروڑوں لوگوں کو اپنی زندگیوں کے فیصلے خود کرنے کا اختیار دلوانے کا جمہوری خواب ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ ہمارے ہاں تو جھوٹی اور بچگانہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے لیکن مغرب میں تاریخ اور انسانی نفسیات پر ہوش ربا تحقیق ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ کسی بھی انسان یا ادارے کو ڈھیل اور چھوٹ مل جائے تو وہ ساری دولت، اختیارات، وسائل اپنی ذات اور ادارے میں مرتکز کرنا شروع کر دیتاہے اور اسے اس عمل میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ اگر ان افراد اور اداروں پر کوئی قدغن یا پہرہ نہ ہو تو ارتکاذ دولت و اختیارات کی کوئی حد نہیں رہتی، یہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ دو مثالوں سے بات واضح کرونگا، پہلے افراد کی مثال دیکھ لیں۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں نے اپنے لئے کیسے کیسے عالیشان محلات بنوائے جبکہ عوام بھوکوں مرتے تھے۔ چند ایک استثنیات کے علاوہ پوری دنیا میں عوام کیلئے ایک شادی کا رواج تھا بلکہ بندش تھی، لیکن دنیا بھر میں بادشاہوں کے حرم بھرے ہوتے تھے۔ دو چار دس کنیزوں سے انکا دل نہیں بھرتا تھا، بیسیوں اور سینکڑوں کنیزیں ہوتی تھیں۔ ریاست کی ساری زمین بادشاہ کی ملکیت ہوتی تھی اور ریاست کے سارے وسائل پر اسی فرد واحد کی اجارہ داری تھی۔ ہوس اور لالچ سے اندھے ہوئے یہ بادشاہ مسلسل دوسرے ملکوں پر قبضے کرنے پر راغب رہتے تھے جسکی وجہ سے بنی نوع انسان ہر وقت حالتِ جنگ میں رہتی تھی۔ انکی ہوس کی آگ بجھانے کیلئے عوام کو زبردستی بھرتی کر کے جنگوں کا ایندھن بنایا جاتا تھا۔ اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے کسی بادشاہ کو کوئی شرم یا حیا نہیں آتی تھی۔ اگر اداروں کی بات کریں تو پاپائیت کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے انسان دوست اور غریب پرور پیغام کو طاقت، دولت اور وسائل کے ارتکاذ کا ذریعہ بنایا۔ جہاں مذہبی پیشوائوں نے مذہب کو سیاسی و معاشی اقتدار پر قابض ہونے کا ذریعہ بنایا اور ایک وقت ایسا آیا کہاجاتاہے کہ یورپ کی ایک تہائی زمین براہ راست کلیسا کی ملکیت تھی، کئی کئی ملک اور ریاستیں چرچ کے کنٹرول میں تھیں، کلیسا سیاست کرتا تھا اور بادشاہوں کی قسمت کے فیصلے کرتا تھا۔ خصوصا ازمنہ وسطی میں جسے بعض مورخ "تاریک زمانے" کے طور پر یاد کرتے ہیں، یورپ معاشی بدحالی، قحطوں، وبائوں اور صلیبی و دیگر جنگوں کے باعث انسانیت کی قتل گاہ بنا رہا۔ لیکن کلیسا ایک ادارے کے طور پر دولت، وسائل اور اختیارات کے ارتکاز میں لگا رہا۔ اور اسے اس عمل میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔
تاریخ بھری پڑی ہے کہ افراد اور ادارے ہمیشہ اپنی بداعمالیوں کا جواز مہیا کرتے رہے، اپنے آپ کو دوسروں سے برتر خیال کرتے رہے، عوام کی ذہن سازی کیلئے توہم پرستی، درباری تاریخ گوئی اور مذہبی جذبات کے استحصال جیسے حربے استعمال کرتے رہے۔ اور جب انسانیت پر ظلم و استبداد کی انتہا کرنے والے افراد اور اداروں کو مظلوم اور پسے ہوئے عوام چیلنج کرتے تو انہیں جادوگر، غدار، مرتد، زندیق اور جانے کن کن الزامات سے نوازا جاتا اور تشدد اور اذیت ناک سزائوں سے انہیں کچل دیا جاتا۔
ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے نتیجتا یورپ میں مختلف اوقات میں بیسیوں ایسی تحریکیں چلیں جنہوں نے انسانیت پر تازیانہ بن کر برسنے والے افراد اور اداروں کو چیلنج کیا، انسانی حقوق اور آزادیوں کی بات کی، مستبد افراد اور اداروں سے حقِ حکمرانی واپس لیا۔ بندوق اور بوٹ کے زور پر مسلط کی گئی مطلق العنانیت کو مسترد کیا۔ چند افراد کے ہاتھوں کروڑوں انسانوں کے استحصال کو روکنے اور انہیں آزاد کروانے کی مجموعی جدوجہد کے نتیجے میں جمہوریت وجود میں آئی۔
آزاد انتخابات، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ، خود مختار مقننہ، سویلین بالادستی، عوامی جوابدہی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ یہ ساری چیزیں بذات خود جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کی منزل کے حصول کے لئے طریقہ ہائے کار کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ جمہوریت کی روح نہیں ہیں۔ تو پھر جمہوریت کی روح کیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ فلسفی امرتیا سین کے مطابق جمہوریت کی روح "جمہوری فیصلہ سازی" ہے یعنی بنی نوع انسانیت اجتماعی فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہو۔ فیصلے کا اختیار، اقتدار کی ہوس میں جلنے والے چند افراد یا اداروں کو نہیں بلکہ خود جمہور کو ہو، وہ جیسے چاہیں فیصلے کریں۔ جمہور کے فیصلہ سازی کے حق پر کسی بہانے کوئی بھی قدغن قابلِ قبول نہیں، نہ ہی کسی فرد، گروہ یا ادارے کو یہ اجازت ہے کہ وہ کسی حیلے بہانے سے خود ہی اپنے آپ کو جمہوری فیصلہ سازی پر قدغن لگانے کا اختیار سونپ دے۔ تاریخی مشاہدہ ہے کہ عام طور پر قدغنیں لگانے والے افراد یا ادارے قوم پرستی، وطن پرستی، نسل پرستی، مذہب پرستی جیسے جواز بنا کر جمہوری فیصلہ سازی کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا ہٹلر نے نعرہ لگایا جرمن نسل خطرے میں ہے، اسے عظیم بنائیں گے۔ مسولینی نے نعرہ لگایا کہ اطالوی قوم خطرے میں ہے اسکا وقار بحال کریں گے۔ ٹرمپ نے نعرہ لگایا ریاست ہائے امریکہ خطرے میں ہے، اسے دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ مودی نے نعرہ لگایا ہندو مذہب خطرے میں ہے، مذہب کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ جبکہ عملی طور پر ان سارے نعروں نے طاقت و اقتدار چند افراد اور اداروں کے پاس اکٹھا کرنے کیلئے عوام کو دھوکہ دیا اور جمہوری فیصلہ سازی کو کمزور کیا۔ نتیجتا ہوس اور لالچ کے تحت کئے گئے چند افراد اور اداروں کے فیصلوں نے ہٹلر اور مسولینی کی شکل میں کروڑوں انسانوں کی جان لی اور اب ٹرمپ اور مودی کی شکل میں ایک دفعہ پھر اربوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔ اگر "جمہوری فیصلہ سازی" نہیں تو پھر جمہوریت ایک دھوکہ ہے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ایک دھوکہ ہے کہ یہاں چند افراد نے "جمہوری فیصلہ سازی" کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔



.
تازہ ترین