• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانامہ لیکس کا معاملہ منظر عام پر آیا تو ہماری سیاست میں ایک طوفان بپا ہو گیا۔ گرچہ اس قضیے میں 259 افراد کے نام شامل تھے، تاہم توپوں کا رخ ایک شخص (وزیراعظم نواز شریف) پر مرکوز رہا، جس کا نام اس فہرست میں شامل ہی نہیں تھا۔ یہ معاملہ جب سیاستدانوں کے مابین تھا، یعنی پارلیمانی اور اسکے دائرہ کار ( ToR ) کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا، تب سیاسی اور صحافتی سطح پر ہیجان کی کیفیت تھی۔ یہ معاملہ جب عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھا، تب بھی عدالت سے باہر عدالتیں لگا کرتیں اور ٹی وی چینلز پر رات گئے تک سرکس سجا کرتے۔ اب جبکہ فیصلہ سنا دیا گیا ہے، خصوصی بنچ تشکیل پا چکا، اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) کے قیام کا حکم جاری ہو چکا۔۔۔۔مگربھانت بھانت کی بولیاں اب بھی سننے کو ملتی ہیں۔ سیاسی مخالفین کے نزدیک پہلے بھی وزیر اعظم نواز شریف مجرم تھے ۔ اب بھی وہ مجرم ہیں۔ پہلے بھی انکے استعفے کا مطالبہ کیا جاتا تھا اب بھی استعفیٰ درکار ہے۔ یعنی الزامات بھی اپنی جگہ برقرار ہیں اور مطالبات بھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر تمام فیصلے اداروں اور آئین و قانون کے بجائے چند بلند آہنگ افراد نے ہی صادر کرنے ہیں تو پھر اداروں پر ناحق بوجھ ڈالنے اور انکا وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ افسوسناک امر ہے کہ دوران سماعت، اداروں کو دبائو میں لانے کیلئے الزامات اور بیانات کا بازار گرم رکھا گیا۔ اورفیصلہ آنے کے بعد بنچ کے فیصلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے، دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کو اچھالا گیا اور تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ اختلافی نوٹ بنچ کے فیصلے سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
پانامہ لیکس تنازع کے ہنگام مسلم لیگ(ن) کے رہنما حنیف عباسی نے بھی عمران خان اور جہانگیر ترین کیخلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔ موقف انکا یہ ہے کہ عمران خان صاحب، جوبیٹوں کی آف شور کمپنیوں کو وزیر اعظم نواز شریف کا گناہ قرار دیتے ہیں ، خود برسوں پہلے اس جرم کے مرتکب ہو چکے۔ انہوں نے 1982 میں نیازی سروسز لمیٹڈکے نام سے آف شور کمپنی قائم کی۔ تین بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا ، مگر اثاثوں میں اسکاذکر نہ کیا۔ یہ معاملہ بھی مقدمے کا حصہ ہے کہ 2010-13 کے دوران تحریک انصاف 23 لاکھ ڈالر کا غیر ملکی فنڈ وصول کیا، جو آئین پاکستان کے آرٹیکل17(3) کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حنیف عباسی کا موقف ہے کہ خان صاحب الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں ، لہذا صادق اور امین نہیں رہے۔ اب اس کیس کی سماعت بھی شروع ہو چکی ہے۔
کیس کی سماعت سے قبل حکومتی اراکین کی میڈیا سے گفتگو پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ فرمایا کہ زیرسماعت مقدمات پر ایسے بات کرنے کی روایت تو امریکہ اور ولایت میں بھی نہیں۔ انہوں نے وکلا کو ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کی ہدایت کر دی ہے۔ جج صاحب کی برہمی اور ہدایت، دونوں قابل تائید ہیں۔ زیرسماعت مقدمات کو غیرضروری طور پر بازار کا موضوع بنانا کوئی عمدہ روایت نہیں۔ یہ اصول مگر ہر زیر سماعت مقدمے پر لاگو ہونا چاہئے۔ پانامہ لیکس کیس میں جو کچھ میڈیا پر ہوا (اور اب تک جاری ہے) ، اس سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جب نوازشریف کٹہرے میں ہوں ، تو جسکے منہ میں جو آئے ،وہ کہے جائے۔ مگر جناب خان کٹہرے میں آئیں ، تو انکا احترام ملحوظ خاطر رہے۔ قابل فہم امر ہے کہ سیاسی کارکنوں کے لئے یہ امتیازی سلوک کسی طور قابل قبول نہ ہو گا۔ خواجہ سعد رفیق کہہ چکے کہ کسی کو مقدس گائے نہیں بننے دیں گے۔
اب خواہ حکومت پر گراں گزرے، اس ہدایت سے انحراف کی گنجائش نہیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ اس کیس کی سربراہی چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے ہیں۔ انہوںنے بجا طور پر مناسب سمجھا کہ میڈیا پر غیر ضروری بات سے گریز کی پالیسی اختیار ہونی چاہئے۔ مگرانصاف کا تقاضا ہے کہ ضابطہ اخلاق جیسے معاملات پر تمام جج ایک page پر ہوں۔ اچھا ہوتا کہ پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے بھی یہ ہدایت جاری ہوتی یا بنچ کے ذریعے جاری کروائی جاتی۔ اب بھی اس اصول کا اطلاق ہونا ہے تو یکساں طور پر تمام مقدمات پر ہونا چاہئے۔
تازہ ترین شوشا یہ چھوڑا گیا ہے کہ شریف فیملی نے عمران خان کو 10ارب روپے کی رشوت کی پیشکش کی تھی، تاکہ وہ پانامہ کے معاملے پر خاموشی اختیار کریں۔ بقول خان صاحب ، کم و بیش دو ماہ قبل حمزہ شہباز شریف کے دوست کے دوست کے توسط سے انہیں یہ آفر کی گئی۔ مضحکہ خیز بات ہے کہ جب شریف فیملی ہر قسم کا میڈیا ٹرائل اور کورٹ ٹرائل بھگت چکی اور فیصلہ محفوظ ہو چکا، اس وقت وہ عمران خان کی زبان بندی سے کیا حاصل کرنا چاہتی تھی؟عمران خان اس شخص کا نام بتانے سے بھی گریزاں ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ شریف فیملی اس شخص کے کاروبار کو تباہ کر دے گی۔ اگر یہ الزام سچ ہے،تب تو شریف فیملی اس شخص کے نام سے بخوبی آگاہ ہو گی ۔ پھر خان صاحب عوام کو اس شخص کا نام بتانے سے کیوں گریزاں ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ عمران خان جو قانون و انصاف کے داعی ہیں وہ ایک ایسے شخص کو کیوں بچانا چاہتے ہیں جو لوگوں تک رشوت کی پیشکش پہنچانے جیسا گھنائونا کام کرتا ہے۔ ایسے آدمی کو قانونی گرفت میں لانے کا اہتمام تو خود عمران خان کو کرنا چاہئے تھا۔
وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی مطالبہ ہے کہ تحقیقات کے بعد سچائی سامنے لائی جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے مگر اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اگر عمران خان کہہ رہے ہیں کہ انہیں 10 ارب روپے کی رشوت کی پیشکش ہوئی ہے تو پھر یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔ عطاالحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میںبجا طور پر اسے ـ" ایمان بالغیب" کی ایک قسم قرار دیا ہے۔ یہ ایک نیا معیار صداقت ہے جو سراج الحق صاحب اور جماعت اسلامی نے مقرر کیا ہے۔ یعنی عمران خان اگر کسی پر کوئی الزام عائد کریں تو جماعت اسلامی اسے سچ کا درجہ دینے پر آمادہ ہے۔اگر معیار صداقت یہی ٹھہرا جس کا تعین امیر جماعت نے کیا ہے، تو پھر عدالتوں، کچہریوں، پٹیشنوں اور درخواستوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو کچھ عمران خان کہتے ہیں اس پر ایمان لاتے ہوئے کارروائیاں شروع کردینی چاہئیں۔ مولانا مودودی کی جماعت اپنی عوامی مقبولیت تو محدود کرہی بیٹھی ہے مگر اپنی نظریاتی اور فکری اساس کے بھی درپے دکھائی دیتی ہے۔ انشااللہ اس پرتفصیلی بات پھر کبھی سہی۔



.
تازہ ترین