چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمر کوٹ سندھ میں ایک جاگیردار کی جانب سے مبینہ طور پر نشے میں دھت تھانے کے اندر گھس کر زبردستی ایس ایچ او کی کرسی پر بیٹھ کر اسے زمین پر بیٹھ کر بات کرنے پر مجبور کر کے ذلیل کرنے اور ایس ایچ او سمیت سارے تھانے کے عملے کو بے عزت کرنے سے متعلق میڈیا رپورٹ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس سندھ سے پانچ روز کے اندر رپورٹ طلب کر لی ہے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ پنجاب ہو یا سندھ اکثر جاگیرداروں نے علاقے میں اپنی حکمرانی قائم کر رکھی ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ان کا یہ وتیرہ چلا آرہا ہے کہ وہ خود کو ہرقانون قاعدے سے بالاتر سمجھتے ہیں اور اپنے کام کے لئے اداروںپر ناجائز دبائو ڈالتے ہیں۔ اس صورت حال سے حکام کی چشم پوشی ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے۔ دوسری طرف پولیس ان لوگوں کے دبائو میں آکر کمزور افراد کو تھانوں میں گھسیٹتی اور ان پر تشدد کرتی ہے اور یہی سلوک جو ان کے ساتھ ہوا، غریب لوگوں کے ساتھ اس سے بھی بدتر کیا جاتا ہے۔ یہ پولیس کی ناکامی ہے کہ اس نے جاگیردار کو تھانے دار کی کرسی پر بیٹھنے دیا۔ تاہم چیف جسٹس کے از خود نوٹس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس ملک میں قانون اب سب کے لئے یکساں ہے۔ یہ واقعہ تو میڈیا کے ذریعے سامنے آگیا ہے لیکن اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں جنہیں دبا دیا جاتا ہے۔ پولیس سمیت کسی بھی محکمے کو دبائو میں نہیں آنا چاہئے، اپنی ڈیوٹی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ذمہ داری سے ادا کرنی چاہئے، وڈیرہ شاہی کا نظام ختم ہونا چاہئےاور اس قسم کے واقعات کا تدارک کرنے کے لئے قانون میں ترمیم بھی کرنی پڑے تو کرنی چاہئے۔ ایسا نظام ہونا چاہئے کہ کوئی شخص قانونی معاملات میں مداخلت نہ کر سکے اور نہ ہی پولیس از خود یا کسی کے دباؤ میں آکر قانون سے ماورا کوئی قدم اٹھائے۔
.