• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہے کوئی ایسا دیس جہاں یہ ہوتا ہو؟ حکومت کا آئینی سربراہ کوئی بھی ہو، اُس کے احکام کی ایسی بے توقیری کہیں ہوتی ہے؟ کوئی بھی ادارہ، حکومت یا ریاست اور کسی طرح کا نظام کیا کہیں کسی ضابطے کے بغیر چل سکتا ہے، اگر نائبین حکم عدولی کرنے لگیں؟ اگر کوئی حکم وزیراعظم کے دفتر سے ڈان لیکس سے متعلق تحقیقات کے نتائج کا پوری طرح غماز نہیں بھی تھا، تو اُس پر ردِّعمل کا مناسب طریقہ اختیار کرنے سے ادارے کی سبکی بھی نہ ہوتی۔ کوئی یہاں کسی کو کیا دوش دے اور ہم خاک نشین شہریوں کی آخر حیثیت ہی کیا ہے؟ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو، تو ہوش کا دامن پکڑنے کی استدعا کوئی کسی سے کیسے کرے؟ سوچتا ہوں کہ کیا ہم کسی بھی نظام کو چلنے دینے کے لئے تیار ہیں یا نہیں؟ کیا ہم اپنی ستر برس پہ پھیلی غلطیوں اور المیوں سے کچھ سبق لینے پہ کبھی مائل ہوں گے؟ آخر ہم اپنے ہی ملک کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ کونسا سیاسی نظام ہے، جسے ہم نے آزمایا نہیں؟ کونسی معاشی پالیسی ہے جو یہاں چلائی نہیں گئی؟ کونسا نظریہ ہے جسے ہم نے مشقِ ستم نہیں بنایا؟ اب تو بچپنے کا بھی بڑھاپا آن چلا ہے، اور ہم ہیں کہ بدلنے کو نہیں؟
پھر بھی اپنے تاریخی گریبان میں جھانک لینے میں کیا مضائقہ۔ یوں بھی قومی تعمیر (Nation Building) کوئی خالہ جی کا کھیل تھوڑی ہے جو ناک کی سیدھ چلتی چلے۔ لیکن ہمارا تو باوا ہی نرالہ ہے۔ ہماری قومی تعمیر کی کل سیدھی تھی نہ ابھی ہے۔ ایک بے ثمر دائرہ ہے، جس میں ہم گھومے جاتے ہیں اور اپنے دیرینہ تضادات کو حل کرنے کے وہی پرانے طریقے آزما کر مختلف طرح کے نتائج برآمد کرنے کے گھامڑپن پر بضد! کبھی المیہ کی صورت اور کبھی کامیڈی کا خمیازہ!! ابھی تک بطورِ قوم ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ ہماری قومی شناخت (National Identity) کیا ہے۔ فکری جلاوطنی کے ایماں آفرین خیالوں میں مگن ہم اپنے تاریخی و زمینی وجود کو ایک دُنیاوی آلائش سمجھتے ہیں یا پھر اپنی ثقافتی کثرتوں کو دبانے کے لئے ڈنڈا لے کر پل پڑتے ہیں۔ یا پھر اُمہ کی دُھن میں دھرتی ماں سے لازوال تعلق بھول بیٹھتے ہیں۔ کبھی ہم ایک ’’قوم‘‘ تھے، بنا ملک کے۔ اور جب دیس ملا بھی تو ہم نے اسے اجنبی جانا۔ اور جب ہم اس کی تعمیر میں لگے تو سمت طے کیے بغیر۔ کونسا دُنیا کا نظام ہے جس کا ہم نے حشر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی: اسلامی ریاست، خلافت، جمہوریہ، اسلامی جمہوریہ، سیکولرازم یا تھیوکریسی (پاپائیت)، صدارتی یا پارلیمانی طرزِ حکومت، حقِ بالغ رائے دہی یا بالواسطہ انتخاب، وفاقیت یا وحدانیت، یکساں شہریت یا جداگانہ شہریت، مشترکہ یا جداگانہ حلقۂ انتخاب۔ غرض سبھی نظام مملکتِ خداداد میں آزمائے اور ٹھکرائے گئے۔ سات عشروں کے بعد بھی قومی شیرازہ بندی اور مملکتی تعمیر بھول بھلیوں کی نذر۔ ہے کوئی جدید دُنیا میں ایسی قوم جو ہماری متلون مزاجی کا مقابلہ کرے۔
ہم نے جو نظریاتی تجربہ گاہ حاصل کی تھی، اُس میں تجربوں کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کم از کم دس آئینی اسکیمیں اور سیاسی نظام بنے اور بگڑے۔ 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ اور گورنر جنرل۔ 1956ء کا پارلیمانی آئین۔ 1962ء کا صدارتی آئین جس میں وحدانی طرز کا وفاق تھا اور حقِ بالغ رائے دہی کی تنسیخ ہوئی۔ آئین کی منسوخی اور یحییٰ خان کا مارشل لا، عوامی مینڈیٹ کا قتلِ عام اور پاکستان کا دو لخت ہونا۔ نیا پاکستان سول مارشل لا۔ 1972ء کا صدارتی آئین۔ 1973ء کا پارلیمانی وفاقی، جمہوری آدھا اسلامی اور آدھا سیکولر آئین۔ آئین کی معطلی، ضیاالحق کا مارشل لا اور PCO کی نظریۂ ضرورت کے تحت توثیق اور آٹھویں ترمیم کی صدارتی نما پارلیمانی ہیئت اور غیرسیاسی انتخابات۔ آٹھویں ترمیم کی ری پبلک کی بحالی جس میں صدر کو پارلیمنٹ کی برخاستگی کا اختیار تھا اور پانچ حکومتیں اس کے طفیل قبل از وقت برطرف کر دی گئیں۔ (1988ء۔1999ء)۔ جنرل مشرف کا مارشل لاء اور PCO کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے توثیق اور تیرہویں ترمیم کی صدارتی اختیار والی پارلیمانی حکومت اور آٹھویں ترمیم والا صدارتی اختیار۔ اٹھارہویں ترمیم کی جمہوریہ کی بحالی جو جنرل ضیا کی آٹھویں ترمیم کی اسلامی دفعات میں دبی ہے۔ اور جمہوری عبور جس میں پہلی بار اقتدار انتخابات کے ذریعہ دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا جس میں آئینی جمہوری نظام ’’اسٹیٹ آف مارشل رول‘‘ کے رحم و کرم پہ ہے۔ کیا اپوزیشن، کیا میڈیا، کیا بار ایسوسی ایشنز اور نادیدہ قوتیں سبھی اس غریب جمہوریہ کو پھر سے پٹری سے اُتارنے لگے ہیں۔ دو برس دھاندلی اور دھرنے کی نذر اور ایک برس سے زائد پانامہ لیکس کاا سکینڈل اور اب جاوے جاوے کے نعرے اور ایک اور سیاسی دھماچوکڑی۔ ایسے میں جمہوریہ اور اس کے دستور کی کوئی کیا پاسداری کرے؟
جی ہاں! تجربات صرف ریاست و سیاست کے میدان تک محدود نہیں۔ ہماری تخلیقی طبع نے معاشی نظام بھی ہر طرح کے گھڑے اور بھگتا دیئے۔ ابتدائی برسوں میں جاگیرداری اور ریاستی سرپرستی میں سرمایہ دارانہ تشکیل۔ ایوب خان کے ترقی کے ماڈل کے تحت ہارورڈ معاشی مکتب کی رہنمائی میں سرمایہ دارانہ ارتکاز اور بڑے زمینداروں کا سبز انقلاب، بیس خاندانوں کی اجارہ داریاں، طبقاتی تفریق اور علاقائی نابرابری میں اضافہ۔ بھٹو صاحب کا ریاستی سوشلزم، پبلک سیکٹر کا فروغ، بنیادی صنعتی ڈھانچے کا قیام، نیم دلانہ زرعی اصلاحات کے ذریعے سرمایہ دارانہ زراعت کا فروغ، دیسی اشرافیہ کی حکمرانی اور غریبوں کے لئے اشک شوئی کا انتظام۔ شریف ماڈل کے تحت نجکاری، آزاد تجارت اور کرائے کی آمدنیوں کا فروغ اور چمکتی ترقی کے عالیشان منصوبوں کے جلو میں پاک چین معاشی شاہراہ (CPEC) کے گیم چینجر کا آغاز۔ پہلے مانگے تانگے کی ترقی یو ایس ایڈ کی مرہونِ منت تھی اور اب یہ چین کی وساطت سے مقدر بدلنے کا بھرم لئے ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چین نے آزادی حاصل کی، جاگیرداری کا خاتمہ کیا، پوری قوم کو خودانحصاری کے فلسفے پہ پیداواری عمل میں شامل کیا، غریبی ختم کی، تعلیم عام کی اور ساری آبادی کو ہنرمند بنا کر کام پہ لگا دیا۔ ہم میں کوئی ایسی نشانی نظر آئے تو کوئی ہمیں آگاہ کرے۔
یہی کچھ حشر ہم نے خارجہ تعلقات اور سلامتی کے ساتھ کیا۔ بھارت کا ہوا ایسا کھڑا کیا گیا اور خود بھارت نے بھی کوئی نہ چھوڑی کہ ہم سوویت یونین کے خلاف امریکی فوجی معاہدوں (سیٹو، سینٹو) میں جا بندھنے۔ سرد جنگ میں ہم امریکہ کے اتحادیوں میں بڑا اتحادی کہلائے۔ بھٹو صاحب نے آزاد خارجہ پالیسی اختیار تو کی لیکن ایک جارحانہ قوم پرست جنون کا شکار ہو گئے۔ آج بھی بھٹو ہی کے قومی سلامتی کے نظریہ کا چلن ہے۔ تیسری دُنیا، مسلم یکجہتی، ایٹم بم، بھارت سے ہزار سال جنگ اور افغانستان میں مداخلت جس کے خصوصی نکات تھے۔ جنرل ضیا الحق نے تو سب کو پچھاڑ دیا اور پاکستان جہاد اور فساد فی الارض کا مرکز بن کر مغربی استعمار کا آلۂ کار بن گیا۔ اور پھر جب عالمی کایا پلٹی تو جنرل مشرف نے مخصوص جنگجوئوں کے خلاف جہاد کا اعلان تو کیا لیکن آستین کے سانپوں کو دودھ پلا پلا کر تگڑا بھی کیا گیا۔ تاآنکہ جنہیں ہم نے نام نہادجہادی اثاثہ بنایا تھا وہ ہمیں پہ پل پڑے۔ جن میں سے کچھ کو جنرل راحیل شریف نے راہ سے ہٹایا اور کچھ کو اب جنرل قمر باجوہ ردالفساد کی مہم سے صاف کرنے نکلے ہیں۔ اس سب کے نتیجہ میں پاکستان ایک سلامتی کی ریاست (National Security State) بن گیا۔ اور افغان جہاد کے نتیجہ میں ایک جنگجو ریاست، جس کے سارے ہمسایوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ غرض سلامتی کی ریاست کا وزن اتنا بڑھا ہے کہ سب کچھ اس کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔ عوامی سلامتی بھی کوئی شے ہوتی ہے، اسے بھلا دیاگیا۔
نتیجتاً ہمارے ہاں سیاسی اور قومی استحکام نہ آیا اور ہم عدم استحکام کے پیچھے گئے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ لیاقت علی خان سے خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہر وردی سے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو تک سبھی وزرائے اعظم یا دھتکارے گئے یا قتل کر دیئے گئے۔ کوئی جنرل ایوب، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کی آئین شکنی پہ ہمیں مقدمہ چلا کر تو دکھلائے، یہ حسرت ہی رہے گی۔ اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ نواز شریف کی تیسری حکومت پھر سے گرداب میں ہے۔ اور کرپشن کرپشن کے شور میں ایک بار پھر جمہوریت کا جنازہ نکالنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اور خیر سے ہم یہ تجربہ پہلے بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کا اسپیشل بنچ بھی بن گیا ہے اور تحقیقاتی ادارہ بھی۔ اور وزیراعظم احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ آپ کو اور کیا چاہیے۔ کسی کا سر یا احتساب؟ آخر ہم کب کسی مقام پر پہنچ کر اطمینانِ قلب پائیں گے اور جیسی کیسی جمہوریہ کو بہتر سے بہتر بننے کے عمل کو روکنے کی بجائے، آگے بڑھنے میں مدد دیں گے۔ کہیے! ہے کوئی ایسا دیس، جو ہمارے جیسا ہو؟



.
تازہ ترین