• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کی اس تحریر کی تحریک مجھے مبشر علی زیدی کی 100لفظوں کی کہانی سے ملی۔ کہانی کا عنوان ہے ’’پرندے‘‘۔ ہوسکتا ہے آپ نے اسے نہ پڑھا ہو۔ ایسے ہی جیسے ہم اپنے شہروں سے غائب ہوجانے والے پرندوں کا افسوس نہیں کرتے۔ ہم اس طرح کی تحریروں کو بھی توجہ میں نہیں لاتے۔ میں اس سے پہلے کہ آگے بڑھوں، آپ کے لئے یہ کہانی نقل کر رہا ہوں۔
’’پرندے‘‘
میرے بچے کوئل کی آواز سن کر بہت حیران ہوئے۔
ہم پکنک منانے شہر سے باہر فارم ہائوس آئے ہوئے تھے۔
’’یہ کون سا پرندہ ہے؟‘‘
کرن نے دریافت کیا۔
’’یہ کوئل ہے، سریلے گانے گاتی ہے۔‘‘
میں نے بتایا۔
پھر ایک نیل کنٹھ دکھائی دیا۔
اس کے بعد ہدہد نظر آیا۔
پھر گلگچی نے نغمہ سنایا۔
حسین نے پوچھا،
’’شہر میں چیلیں اور کوے اڑتے پھرتے ہیں۔
یہ پرندے شہر کیوں نہیں آتے؟‘‘
میں نے کہا،
’’جب شہر اور میڈیا قدر دان نہ رہے
تو فن کار وہاں سے کوچ کر جاتے ہیں۔
کائیں کائیں کرنے والے رہ جاتے ہیں۔‘‘
اب ہونا تو یہ چاہئے کہ میں اس سے آگے کچھ نہ کہوں۔ کچھ نہ لکھوں اس لئے کہ کہانی میں مبشر علی زیدی نے تمام کہانی تمام دکھ بیان کردیا ہے لیکن شاید میرے کچھ لکھنے سے، کچھ واقعات شیئر کرنے سے کچھ ہی لوگ بات سمجھ سکیں اور شاید ہم کچھ ایسا کر پائیں کہ ہم سے روٹھے ہوئے پرندے واپس آ جائیں۔
مجھے یاد ہے میں نے بہت پہلے جاپان کے ایک چھوٹے سے شہر کی اپنے ماحول کو بہتر کرنے کی کوششوں سے متعلق ایک ڈاکیومنٹری دیکھی تھی۔ اس میں ایک سوال اٹھایا گیا۔ یہ سوال دنیا کے ہر شخص کے لئے ہے۔ سوال کچھ یوں ہے کہ کبھی تم نے غور کیا ہے کہ تمہارے گھر کے قریب کا پانی کتنا صاف ہے۔ کیا تمہارے گھر کے قریب سے کوئی نہر، کوئی دریا، کوئی جھیل گزرتی ہے؟ کیا ان کے پانیوں پر پرندے تیرتے ہیں؟ کیا ان پانیوں کے کنارے خوبصورت درخت ہیں جن کی خوشبو سے انسان بھی لطف اٹھاتے ہیں اور اردگرد کے پرندے بھی؟
یہ سوال ایک ایسے علاقے کے لوگوں کی طرف سے ہے کہ جنہوں نے ہر ممکن یہ کوشش کی کہ ان کے اردگرد کی فضا ہر طرح کے کثیف دھویں اور مادے سے محفوظ ہو جائے۔ ان کی نہریں صاف ہیں، درخت جاندار اور پرندے محفوظ۔ لیکن میں جو لاہور شہر سے ہوں اپنے شہر کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرا دکھ بھی وہی ہے جو میر ےدوست مبشر علی زیدی کا کراچی کے بارے میں ہے۔ میرے شہر میں بھی صرف کائیں کائیں ہی سنائی دیتی ہے یا پھر یہاں مردار کھانے والی چیلوں کے ڈیرے ہیں۔ اس لاہور شہر کو جسے باغوں کا شہر کہا جاتا تھا، ایک لحاظ سے پرندوں کا شہر بھی کہہ سکتے تھے۔ اس لئے کہ جہاں باغ ہوں گے وہاں پرندے بھی ہوں گے۔ اس شہر کے ندی نالے اور دریا تو عرصہ ہوا زہرناک ہوچکے۔ باقی کسر اس میں خوبصورتی کے نام پر لگنے والے درختوں اور جھاڑیوں نے پوری کردی۔ جس طرح اسلام آباد میں کسی بے عقل نے ایوب خان کے دور میں جاپانی شہتوت کے پودے لگا کر اسلام آباد کی فضا کو ہمیشہ کے لئے خراب کردیا تھا۔ اسی طرح ایک کے بعد ایک بے عقل نے لاہور میں نمائشی پودوں کے نام پر ایسے درخت لگا دیئے جو دیکھنے میں تو شاید ہر وقت ہرے بھرے لگتے ہوں لیکن ان درختوں پر پرندے نہیں بیٹھتے۔ شہر کی فضا پہلے ہی دھویں، کوڑے کے ڈھیر اور گندے پانی کے باعث مسموم ہے، یہ درخت بھی پرندوں کے لئے شاید ایسی باس چھوڑتے ہیں جو انہیں قبول نہیں۔ لاہور میں کبھی بیریوں کے ڈیرے تھے جن پر بے پناہ طوطے بیٹھتے تھے۔ اسی طرح جامن اور دوسرے پھل دار اور پھولوں سے لدے درختوں پر انواع و اقسام کی چڑیاں بیٹھتی تھیں۔ یہ سب غائب ہوئے۔
رہی بات ہمارے حکمرانوں کی تو انہیں صرف یہ پروا ہے کہ کسی طرح اورنج لائن ٹرین منصوبہ مکمل کرلیں۔ اس کے لئے خواہ ہر طرف کچرے کےڈھیر اور نالیوں سے نکلنے والے بدبودار پانی کے ڈھیر لگ جائیں۔ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ خادم اعلیٰ کے حکم سے ایک رپورٹ کےمطابق وسطی لاہور میں سیوریج کے نظام پر لگنے والی رقم میں سے زیادہ تر حصہ نکال کر اورنج لائن ٹرین منصوبے پرخرچ کردیا گیا ہے۔ اس سے لاریکس کالونی سے گلشن راوی تک سیوریج لائن مکمل طور پر ناکارہ ہوگئی ہے۔ جگہ جگہ اس وجہ سے گندے پانی کے ڈھیر ہیں۔ ایسے میں پرندے تو درکنار کوئی انسان بھی ایسے علاقوں میں رہنا پسند نہیں کرے گا۔ ایسی ہی صورتحال راوی دریا کی ہے۔ اس کا پانی میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ اب صرف بدبودار زہر ہے۔ اس دریا میں پورے لاہور کا سیوریج اور فیکٹریوں سے نکلنے والا غلیظ مواد گرتا ہے۔ اسی پانی سے سیراب ہونے والے پودوں سے جو بدبو آئے گی اس پر کیا کوئی پرندہ بیٹھے گا؟ خادم اعلیٰ تو اپنے بھائی کے جاتی امرا کے محلات میں مصنوعی ماحول بناکر پرندے پال کر اپنی خواہش پوری کرلیں گے مگر ہم لوگ بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم اپنے گھروں کےقریب چڑیوں کی چہکار سنیں۔ اس کا کیا ہوگا؟



.
تازہ ترین