• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سیاسی حالات میں گرما گرمی میں اضافہ کسی بھی لحاظ سے ملکی حالات اور معیشت کے لئے صحت مند رجحان نہیں ہے، ایسی صورتحال سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار بلکہ تمام شعبے متاثر ہوتے ہیں، جس سے قومی ترقی کے اہداف پورے کرنے میں کئی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہیں۔ ایسے حالات میں قومی سطح پر مفاہمت اور رواداری کا رجحان پیدا کرنے کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جو اس وقت اس لئے ناپید نظر آتی ہے کہ اپوزیشن ، کیا حکمراں جماعت بھی الزام تراشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کسی سے کم نظر نہیں آتی۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم کی سطح پر یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی منظر پر کون سا ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے جس کے تحت الزام تراشی کی سیاست کو ترک کرکے قومی ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے کو تقویت دی جاسکے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی سطح پر اعتماد کی کمی کے بحران کو حل کرنے کے لئےسیاسی جماعتوںکو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ اس لئے کہ سپریم کورٹ میں پاناما فیصلہ آنے کے بعد ملک میں بدقسمتی سے جس طرح کی سیاست اور اس پر بیان بازی یا ردعمل سامنے آیاہےوہ کسی بھی لحاظ سے صحت مند رجحان نہیں ہے۔
اس صورتحال سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہ قومی اداروں کی ساکھ اور معاشی سرگرمیاں!خدارا اس حوالے سے سیاسی قائدین سوچ بچار کریں، کہ آخر وہ ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟کیا وہ سب چاہتے ہیں کہ سیاست کی بساط لپیٹ دی جائے۔ نیا اور الیکشن سے ہٹ کر کوئی اور اقدام سامنے آجائے، ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے، البتہ یہ ممکن نظر آرہا ہے کہ سپریم کورٹ چونکہ ملک کا اعلیٰ ترین اور معتبر ترین ادارہ ہے، وہاں سے سیاسی نظام کے مستقبل کے حوالے سے کوئی گائیڈ لائن سامنے آجائے ایسا ہونا نہیں چاہئے اور نہ ہی کبھی ہوا ہے!لیکن اگر سب اپنی اپنی ڈگر پر چلتے رہے تو پھر حالات کسی اور طریقے سے نہ سہی، قانون کے قلم سے ٹھیک کرنے کی بازگشت سامنے آسکتی ہے جس کی ڈیمانڈ ابھی تک کوئی نہیں کررہا، مگر اچانک بے نامی درخواستیں سامنے آسکتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا احترام اور خوف ابھی تک تو ہے بلکہ اگر سیاسی نفسا نفسی اور کردار کشی کی سیاست کی روش جاری رہی تو حکومت کے پاس یہ جواز پیدا ہوسکے گا کہ ہم نے تو ملک کی ترقی کے لئے سب کچھ کرنے کی کوشش کی مگر ہمیں اپو زیشن نے کام نہیں کرنے دیا، حالانکہ یہ دعویٰ کرنا اچھانہیں ہوگا کیونکہ چار سال سے تو حکمران مزے کررہے ہیں ، ہر ادارہ انہیں کام کرنے کے لئے پورا سازگار ماحول فراہم کر رہا ہے کسی جگہ سے بھی یہ تاثر نہیں مل رہا کہ انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ نئے الیکشن سے کافی پہلے سیاسی ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے متوازن ضابطہ اخلاق مرتب کرلیا جائے اور دوسری طرف ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور ناانصافی کے خاتمے کے لئے اورقوم کو مطمئن کرنے کے لئے موثر اقدامات اور اصلاحات کرنا ہوگی ورنہ آنے والے عرصے میں حکمرانوںاور اپوزیشن کے لئے زیادہ مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور پھر الیکشن جیتنے کے زعم کے بجائے کئی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

.
تازہ ترین