• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پورے ملک سے بجلی کی قلت کے خاتمے کو موجودہ حکومت اپنی اولین ترجیحات میں شامل بتاتی چلی آرہی ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں بجلی پیدا کرنے کے متعدد چھوٹے بڑے نئے منصوبے شروع بھی کیے گئے اور مسلسل یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے کہ 2017ء تک ملک کو بجلی کے بحران سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی لیکن لوگ حیران ہیں کہ اب جبکہ حکومت کی آئینی میعاد میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے، گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی پورے ملک پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب کم و بیش پہلے جیسی ہی شدت سے کیوں مسلط ہوگیا ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اتوار کے روز بجلی کی طلب اور رسد کا فرق دن کے بعض حصوں میں سات ہزار میگاواٹ تک جا پہنچا جبکہ پانچ ہزار میگاواٹ کی کمی مستقل طور پر قائم رہی اور ملک بھر میں سات سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی گئی۔یہ کیفیت مئی 2013ء سے بھی ابتر ہے جب مئی کے ابتدائی دنوں میں شارٹ فال چار سے چھ ہزار میگاواٹ کے درمیان نوٹ کیا گیا تھا اگرچہ اس وقت بجلی کی طلب بھی آج کی نسبت دو سے تین ہزار میگاواٹ کم تھی۔ تاہم اسے ملحوظ رکھنے کے بعد بھی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی شدت میں چار سال بعد بھی کوئی حقیقی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اگر حکومتی دعووں کے مطابق صنعتوں کو لوڈ شیڈنگ سے واقعی نجات دلادی گئی ہے تو یہ بہرحال ایک مثبت پیش رفت ہے۔لیکن وزرات پانی و بجلی کی جانب سے اس صورت حال کو گرمی میں اضافے کا نتیجہ قرار دینا بہرصورت کوئی قابل قبول توجیہ نہیں ہے کیونکہ گرمی کا موسم زلزنے اور طوفان کی طرح کوئی آسمانی آفت نہیں جو اچانک ٹوٹ پڑی ہو ۔گرمی کی شدت ابھی کم و بیش تین ماہ مزیدجاری رہے گی لہٰذا کم از کم اب لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم سے کم رکھنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جانی چاہیے۔ شمسی توانائی کا نجی سطح پر استعمال بھی مسئلے کا ایک فوری، ممکنہ اور قابل عمل حل ہے لہٰذا اسے بھی پورے ملک میں شہریوں کے لیے حتی الامکان ارزاں نرخوں پر آسانی سے قابل حصول بنایا جانا چاہئے۔

.
تازہ ترین