• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہا جاتا ہے اور کسی حد تک مانا بھی جاتا ہے کہ حاکموں کی زبان پھلتی، پھولتی اور پھیلتی ہے۔ اردو زبان کا پورے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل جانا میرے لئے حیران کن بات تھی۔ مجھے تعجّب ہوتا تھا اور ہوتا ہے کہ لوگ اس حیرت انگیز حقیقت کو معمولی بات سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ میں نے سوچ سمجھ کر اردو کے ساتھ لفظ کرشمہ لکھا ہے۔ پچھلی کسی کتھا میں، میں نے عرض کیا تھا کہ ہر زبان کا اپنا ایک مسکن، اپنا ایک مکان، اپنا ایک ماحول ہوتا ہے جس میں وہ زبان پنپتی ہے، پھلتی ہے، پھولتی ہے۔ میں نے انگریزی، فرانسیسی، بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی، مراٹھی، گجراتی وغیرہ زبانوں کا حوالہ دیا تھا۔ پھر کیا اور کیسا ماجرا تھا کہ انگریزوں نے جب مکمل طور پر ہندوستان پر قبضہ جما لیا تب ایک ہی زبان تھی جو پورے ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی تھی اور وہ زبان تھی اردو۔ بنگالی، مراٹھی، گجراتی، مدراسی، سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی اپنے اپنے صوبوں تک محدود تھی۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہندی ہندوستان کی زبان تھی اور ہے۔ یہ بات قابل تحقیق ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندی اور اردو ایک بھاشا یعنی زبان کے دو نام ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہندوستان میں وہ مکان، مسکن اور جگہ کہاں ہے جہاں ہندی پنپتی ہے، پھلتی ہے، پھولتی ہے۔ اس وقت ہندی کو حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
میرا علم بہت محدود ہے۔ آپ میری تصحیح کریں۔ فقیر محبت میں اکثر بہت دور نکل جاتے ہیں۔ جہاں جہاں میں نے تاریخ کی نفی کی ہے، آپ مجھے روکیں، آپ مجھے ٹوکیں۔ ایک تاثّر ہے یا دعویٰ ہے کہ وید، گیتا، رامائن، مہا بھارت اور دیگر دھرمی کتابیں ہندی میں لکھی اور پڑھی جاتی ہیں اس لئے ہندی پورے ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ دعویٰ ہم فقیروں کے پلّے نہیں پڑتا۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے اٹھاون مسلم ممالک میں لوگ فرفر عربی بول رہے ہوتے۔ پاکستان میں خیبر سے لے کر کراچی اور کوئٹہ تک رابطے کی زبان عربی ہوتی۔ سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان آپس میں ملتے تو عربی میں بات چیت کرتے مگر ایسا نہیں ہے۔ اردو مذہبی زبان نہیں ہے۔ مذاہب لوگوں کیلئے ہوتے ہیں۔ لوگ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور یہودی ہوتے ہیں۔ زبانیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی نہیں ہوتیں۔ خلیل جبران عیسائی تھے مگر ان کی مادری زبان عربی تھی۔ انگریزی میں لکھنا، پڑھنا ان کو میری ہیکل نے سکھایا تھا۔ وہ جبران کی انگریزی میں لکھی ہوئی تحریروں کی تصحیح کرتی تھی۔ میری ہیکل اور خلیل جبران کی بڑی ہی انوکھی لو اسٹوری (Love Story) ہے۔ میری ہیکل عمر میں خلیل جبران سے پندرہ برس بڑی تھیں۔ ان دونوں کی غیر معمولی محبت کا قصّہ میں پھر کبھی آپ کو سنائوں گا۔ خلیل جبران کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان ہی قصّوں اور کتھائوں میں آگے چل کر میں آپ سے اردو کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں بات چیت کروں گا۔ اردو کے ساتھ نامناسب اور ناروا سلوک ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں برتا جا رہا ہے۔ پبلشر صاحبان کسی عالمی معیار کی کتاب کا اردو میں ترجمہ لانے کی دوڑ میں ایک اہم حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور اس غلطی اور کوتاہی کا نزلہ اردو پر گرتا ہے۔ پبلشر صاحبان اس بات کو قطعی کوئی اہمیت نہیں دیتے کہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے والے مترجم کی انگریزی کے بارے اپنی سوجھ بوجھ کتنی ہے۔ انگریزی زبان پر اس کی دسترس کتنی ہے۔ پبلشر صاحبان اس بات کو قطعی اہمیت نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک عالمی معیار کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب کا ناقص اردو ترجمہ آپ کو پڑھنے کیلئے ملتا ہے اور پھر سننے کیلئے ایک جملہ ملتا ہے ’’یار اردو میں دم نہیں ہے۔ یہ کتاب تم انگریزی میں پڑھو۔‘‘
شفیق الرحمان نے ولیم سیرویان کے بے مثال ناول Human Comedyکا اردو میں ترجمہ کیا تھا اور نام رکھا تھا، انسانی تماشہ۔ میں نے ناول انگریزی میں پڑھا ہے اور اردو میں بھی پڑھا ہے۔ میرا اپنا تجزیہ ہے کہ مجھے لگا تھا کہ ناول اردو میں لکھا گیا تھا اور ولیم سیرویان نے انگریزی میں اس ناول کا ترجمہ کیا تھا۔ زبردست ترجمہ ہے۔ شفیق الرحمان نے ولیم سیرویان کی روح میں اتر کر ناول کا ترجمہ کیا ہے۔ ویسے بھی شفیق الرحمان کا انگریزی ادب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انگریزی زبان پر ان کو دسترس حاصل تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ولیم سیرویان، شفیق الرحمان کے پسندیدہ ادیب تھے۔ آپ ناول ہیومن کامیڈی کا اردو ترجمہ انسانی تماشہ ضرور پڑھیں۔ آپ کبھی نہیں کہیں گے کہ اردو میں دم نہیں ہے۔ آپ کہیں گے کہ ناول ترجمہ کرنے والے میں بڑا دم ہے۔ ترجمہ کرنے والوں کی اپنی خامیاں اور کمزوریاں اردو کی ساکھ کو متّاثر کرتی ہیں۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے مترجم کتاب سے پیراگراف کے پیراگراف اور صفحوں کے صفحے غائب کر دیتے ہیں۔ حتّیٰ کہ مترجم اصل جملوں کا مفہوم اور معنیٰ تک بدل دیتے ہیں۔ یہ بددیانتی ہے۔ اس بددیانتی میں پبلشر بھی ملوّث ہوتے ہیں۔ اس بددیانتی کا خمیازہ اردو کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ باتیں آنے والی کتھائوں میں ہوتی رہیں گی۔ یہ کھوج لگانے سے پہلے کہ کیا اردو ہندوستان پر کسی حملہ آور کی زبان تھی یا ہندوستان پر حکومت کرنے والے کسی حاکم کی زبان تھی کہ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی تھی۔ ہم ایک تاریخی حقیقت کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ کسی حملہ آور یا کسی حاکم کی زبان ملک کے کونے کونے میں بولی جائے اور سمجھی جائے۔ اگر اس بات میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو ہندوستان کے آخری حکمرانوں کی زبان انگریزی پورے ہندوستان پر چھا گئی ہوتی اور گلی، کوچوں میں بولی جا رہی ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ انگریز کے دور میں اردو ہندوستان کے طول و ارض میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔

.
تازہ ترین