• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے پچھلے کالم میں کہا تھا کہ آپ کو اس مرتبہ Broad Street cholera pumpکے بارے میں کچھ بتائیں گے مگر اس دوران ہم نے ایک خبر پڑھی کہ پاکستان میں ہر سال 40ہزار بچے اور بچیاں ایسے پیدا ہوتےہیں جن کے دل میں سوراخ ہوتا ہے اور ان میں سے 20ہزار بچوں کو لازمی طور پر دل کی سرجری کراکے اس سوراخ کو بند کروانے کی ضرورت ہوتی ہے ہمارا خیال تھا کہ یقیناً اس پر موجودہ حکومت اور پچھلی حکومتوں نے ضرور کچھ نہ کچھ کیا ہو گا کیونکہ ہر حکومت کی ترجیح میں صحت اور تعلیم ضرور نعروں کی حد تک ہوتی ہے مگر جب ہم نے یہ خبر پڑھی تو ہم نے سوچا کہ cholera pump پر ہم پھر بات کریں گے۔کیوں نہ ہم اس مرتبہ اس پر بات کریں۔
عزیز قارئین اور عوام کی صحت سے بے خبر حکمرانوں کو شاید یہ بات بالکل معلوم نہیں کہ پورے ملک میں 22کروڑ کی آبادی میں صرف دس پیڈیاٹرک ہارٹ سرجنز ہیں ۔Pediatric heart/cardiacجبکہ پاکستان میں ہر سال 40ہزار بچے ایسے پیدا ہو رہے ہیں جن کے دل میں سوراخ ہوتا ہے اور ان میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور یہ بیماری ہی لڑکیوں کی ہے۔
ماہرین کے بقول ان میں نصف تعداد کو ہر صورت سرجری کی ضرورت ہوتی ہے دس بچوں کے کارڈیک سرجنوں میں سے چھ ریگولر ملازمت کرتے ہیں اور چار پارٹ ٹائم ہیں اور لاہور کے چلڈرن اسپتال میں سرجر ی کے لئے بچوں کو لمبی لمبی تاریخیں ملتی ہیں۔
گو کہ اس میں اسپتال کی انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں کیونکہ جب آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہی ہے اور حکومت کی ترجیحات میں صرف اورنج ٹرین ،پل اور سڑکیں ہوں تو ایسے میں کون اس طرف سوچے گا؟
ہزاروں ہیلتھ کی میٹنگیں ہوئیں کئی میٹنگوںمیں ہمیں بھی بلایا گیا مگر کبھی اس موضوع پر بات نہ ہوئی کہ پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے دل میں سوراخ لئے پیدا ہو رہے ہیں اگر حکمرانوں اور وزراء کرام کے کسی بچے کو یہ تکلیف ہوتی تو یقیناً ملک میں بچوں کے دل کے سرجنوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کیا کیا منصوبہ بندی کی جاتی۔
ان دس بچوں کے کارڈیک سرجنوں میں سے پانچ صرف پنجاب میں ہیں باقی پانچ ملک کے چاروں صوبوں میں ہیں آزاد کشمیر میں غالباً کوئی بچوں کا کارڈیک سرجن نہیں ۔
کبھی کسی نے سوچا کہ جن 20ہزار بچوں کو ہارٹ سرجری کی ضرورت ہوتی ہے کیا یہ دس سرجن ان ہزاروں بچوں کی دل کی سرجری کر لیں گے جبکہ ہر سال اتنے ہی اور بچے آ جائیں گے ہر پانچ برس کے بعد ان کی تعداد ایک لاکھ ہو جاتی ہے اور سرجن وہی دس کے دس رہتے ہیں یہ تو بھلا ہو لاہور چلڈرن اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کا جنہوں نے اپنے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید احسن راٹھور کے ساتھ ملکر یہ طے کیا کہ جو بچہ /بچی ایمرجنسی میں ہارٹ اٹیک کے ساتھ آئے گا اس کے دل کا آپریشن فوری طور پر وہ کر دیں گے۔جو بچے /بچیاں زیادہ سیریس نہیں ہو ں گی ان کے دل کی سرجری دو/تین سال کے اندر کر دی جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ دل کے سوراخ کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں اور بچیوں کا کوئی علاج نہیں تھا وہ عمر کی تیس، چالیس سال بہاریں دیکھ کر اور بعض انتہائی چھوٹی عمر میں مر جاتے تھے۔برصغیر کی حسین و جمیل اداکارہ مدھو بالا (ممتاز خاں) کے دل میں سوراخ تھا اس کےدل کی اوپر والی جھلی میں سوراخ تھا اس نے اس کا بہت علاج کرایا حتیٰ کہ انتقال سے پہلے وہ لندن بھی علاج کرانے گئی بالآخر صرف 36برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھی اس زمانے میں اس کا علاج نہیں تھا آج اگر علاج ہے تو ہمارے ملک میں ماہرین کی کمی ہے۔
ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ حکومت ایک بھی بڑے اسپتال پر اربوں لگا دیتی ہے جس کے نتائج کسی صورت بھی مثبت نہیں آتے۔ اگر حکومت چھوٹے شہروں میں اس بیماری کے سرکاری اور ٹیچنگ اسپتالوں میں شعبے اپ گریڈ کرکے وہاں مزید ماہرین کو تعینات کر دے تو اس کے نتائج بڑے مثبت آئیں گے۔
کتنی دلچسپ اور مضحکہ خیز بات ہے کہ لاہور چلڈرن اسپتال کے ساتھ کوئی میٹرنٹی یعنی گائنی کا شعبہ نہیں جبکہ اس اسپتال میں نوزائیدہ /نومولود بچوں کو بڑی تعداد میں لایا جاتا ہے حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اس اسپتال کے ساتھ ہی بڑا گائنی اسپتال ایک ہی کمپائونڈ میں بنایا جاتا تاکہ نوزائیدہ بچوں کو کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں فوراً علاج کی سہولت مل جاتی۔
عزیز قارئین جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے رونا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ جب وہ روتاہے تواسکے پھیپھڑوں سے پانی خارج ہوتا ہے اور ہوا اندر جاتی ہے اور وہ سانس لینا شروع کرتا ہے۔ اگر وہ ایک منٹ کے اندر اندر نہ روئے اور سانس نہ لے تو اس کا دماغ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا اور وہ معذور ہوجائےگا پھر اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ ذرا دیر کو سوچیں لاہور کے دور دراز کے علاقوں کے کسی سرکاری یا پرائیویٹ اسپتال یا پھر گھر میں دائی کے ذریعے پیدا ہونے والا ایسا بچہ/بچی ایک منٹ میں لاہور چلڈرن اسپتال تک پہنچ سکتا ہے؟ ایساکبھی نہیں ہوسکتا جبکہ حالات یہ ہیں کہ لاہور کے چلڈرن اسپتال میں دوسرے صوبوں سے بھی ایسے بچوں کو لایا جاتاہے۔
نوزائیدہ بچوں کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ عرفان وحید نے ہمیں بتایا کہ پچھلے سال انہوں نے ایک ہزار کے قریب ایسے مردہ بچے وصول کئے۔ لوگ مرے ہوئے بچوں کو یا نیم مردہ بچوں کو لے آتے ہیں۔ اسوقت کوئی ڈاکٹر کچھ نہیں کرسکتا، بچے کا یہ پہلا منٹ اس کے لئے زندگی اور موت کا ہوتاہے بچے کے دماغ کو اس پہلے منٹ میں ہر صورت میں آکسیجن ملنی چاہئے ۔
یہ ایک منٹ جس کو میڈیکل میں گولڈن منٹ کہا جاتا ہے اس کی اہمیت کے بارے میں آخر کون بتائے گا؟ کون دائیوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی تربیت کرے گا؟ ایک بے چارہ ڈاکٹر خواجہ عرفان وحید کی ذمہ داری نہیں۔ جنہوں نے ہر صوبے میں جا کر ڈھائی ہزار ڈاکٹروں، نرسوں اور دائیوں کو تربیت دی کہ کس طرح آپ کواس ایک منٹ میں بچے کو رلانا ہے اور اس کے پھیپھڑوں سے پانی خارج کرانا ہے۔
اب تو دنیا میں یہ کہا جارہا ہے کہ ایک ہی کمپائونڈ میں جنرل سرجری، بچوں کا شعبہ اور گائنی کا شعبہ ہونا چاہئے اوراس پر کام ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں الٹا کام ہورہا ہے ایک ایک بیماری کا علیحدہ علیحدہ اسپتال بنایا جارہا ہے جس کاکسی دوسرے اسپتال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً پاکستان کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ میں دل کے مریضوں، شوگر کے مریضوں اور بلڈپریشر کے مریضوں کی ایمرجنسی کے لئے کوئی شعبہ ہی نہیں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ گردوںکے اکثر مریضوں کو شوگر ،دل اور بلڈپریشر کا مرض بھی لاحق ہوتا ہے۔
اللہ جانے اس ملک میں شعبہ صحت کے منصوبہ ساز کون ہیں؟ اور ان کا وژن کیوں نہیں؟ یقین کریں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کاشعبہ صحت کے بارے میں بڑا واضح وژن ہے جبکہ ان کے اردگرد ایسے لوگوں کی فوج ظفر موج بیٹھی ہے جن کا کوئی وژن نہیں وہ لاکھوں روپے تنخواہیں اور تمام سرکاری سہولتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
عزیز قارئین! آپ دیکھ لیجئے گا کہ اس وقت شعبہ صحت میں جو بھی منصوبے چل رہے ہیں آئندہ پانچ برس بعد ان میں سے کئی منصوبے آپ کو نظر ہی نہیں آئیں گے۔

.
تازہ ترین