• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب وزیراعظم نے کہا ہے کہ ملک میں کرپشن کیسز اتنے زیادہ ہیں کہ اگر تحقیقات کرنے پر لگ گئے تو پھر ترقیاتی کام رک جائیں گے۔ اس کمال جملے پر آج کل سوشل میڈیا پر آنے والا یہ لطیفہ کسی حد تک خوب صادق آتا ہے (امین اس لئےنہیں کہوں گا کہ اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے) ’’دو آدمی تیزی سے مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور کھڑی نماز کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں، نماز ختم ہوتی ہے تو شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر وضو کے چکر میں پڑ جاتے تو نماز تو رہ ہی جاتی‘‘چیف ایگزیکٹو صاحب کےبیان پرمزید کیا تبصرہ کریں کہ ۔ اب ذرا اندازہ کیجئے کہ ابھی تک خود ہرقسم کی کرپشن سےپاک ہونے اور عوام کو دور زرداری کے ’’مبینہ کرپشن‘‘ کے قصے کھول کھول بلکہ گھول گھول کے عوام کو ہروقت پلائے جانے والے اپنی ذمہ داری جامع تحقیقات کی بجائے محض کرپشن کیسز کو مصیبت سمجھ کر جان چھڑائیں گے تو نظام کیسے ٹھیک ہوگا اور موجودہ آنے والی نسل کیا سبق سیکھے گی۔۔؟
گزشتہ سال اپریل کے مہینے میں ہنگامہ برپا کرنے والا پاناما لیکس کا قصہ پاکستان میں تحقیقات کے عمل سے گزر رہا ہے، وزیراعظم کے بچوں سے شروع ہونے والی اس کہانی میں جہاں دعویٰ اور دفاع کیا جا رہا تھا کہ وزیراعظم کا تو اس میں نام ہی نہیں، اب عدالت عظمیٰ کےحکم پر گریڈ 20/19 کے افسران اسی وزیراعظم سے ’’تفتیش‘‘ کریں گے، اس ناچیز نےمارچ دو ہزار سولہ میں اپنے کالم میں ’’احتساب آپ سے شروع کے عنوان سے سنگاپور کے پہلے منتخب وزیراعظم لی کا قصہ لکھا تھا جس میں عوامی وزیراعظم پولیس چیف سے نظر آنے والے ٹھوس نتائج کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ ’’یس سر‘‘ کے بعد کہتا ہے:جناب وزیراعظم احتساب آپ سے شروع ہوگا‘‘، پڑھنے والوں نے میرے لکھے الفاظ کو سمجھ بھی لیا اور جناب اعتزاز احسن جیسے منجھے وکیل اور زیرک سیاستدان نے ایوان بالا میں کھڑے ہوکر ’’وزیراعظم احتساب آپ سے شروع ہوگا‘‘ کا سیاسی نعرہ بھی لگا دیا جو آج تلخ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ ایسے میں وزیراعظم ہائوس کے ذمہ داروں کی طرف سے سوشل میڈیا پر پاناما پیپرز کو محض بے کار (ردی) کاغذ قرار دینے کا مقصد کیا عدالت عظمیٰ کی تحقیقات کرانے کےفیصلے پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش نہیں؟ کیا سوشل میڈیا پر ایسے جملے کسنا عوام کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور شکوک و شبہات کو کھرچنے کی کوشش ہے؟ کیا پاناما پیپرز کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دینا عوامی وجمہوری سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟ کیا ایسا کہہ کرحکومت کی عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکامی پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے؟ کیا موجودہ جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کا جرمن اور پاکستان کے پیشہ ور صحافیوں پر الزام آزادی اظہار رائے کا احترام اور میڈیا کی آزادی کی حمایت ہے؟ کیا آپ حقیقی احتساب سے بچ کرعوامی احتساب سے بچ جائیں گے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آپ نے عوام کی خدمت کو شعار بنانے اور ان کے دیرینہ وبنیادی مسائل کےحل میں ناکامی سے نظریں چرانے اور عوام کو ڈی ٹریک کرنے کےلئے اب روز ایک نئی منطق گھڑنی شروع کردی ہے، آپ تو عوام کے پریشان حال دلوں پر ایک ہی منصوبے کے بار بار فیتے کاٹنے کا نشتر چلا رہے ہیں، عوامی مطالبات سننے اور پورا کرنے اور کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں، آپ کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عوام کے ذہن ودل جیتنے کی بجائے شہروں، قصبوں اور دورافتادہ علاقوں کے الیکٹیبلز کے دل جیتیں انہیں ساتھ ملائیں، برادری ازم اور مخصوص طاقتور ٹولے کی مدد سےآئندہ کا انتخاب پھر حاصل کرسکیں، باقی مسائل تو چھوڑیں، بجلی کے بدترین بحران کے نام پرووٹ لینے کےباوجود چار سال بعد بھی منٹوں نہیں کئی کئی گھنٹوں لوڈشیڈنگ والی صورت حال ہے اور اب آپ جن آئی پی پیز کو برا بھلا کہہ کر عوام کے رنگ سرخ وسیاہ کرتے رہے اب بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے پرائیویٹ بجلی پیداوار کے کارخانوں کے آپشن پرجارہےہیں۔ عوام کے لئے شاید آپ کی جمہوریت کا یہی ثمرہے؟
ادھر خان صاحب سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کی غلط تشریح پر فاضل ججز کی ’’جھاڑ‘‘ کھانے کےباوجود کوئی بھی اثر لینے کو تیار نہیں، ایک صوبے میں مثالی کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخاب لڑنے اور کامیاب ہوکر وزیراعظم بننے کے خواب کوپورا کرنے کا آسان راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں، حیرت ہے کہ صدیوں سے غریبوں پر جابرانہ حکمرانی کرنے والے، پھر ووٹ سے بدتر انداز میں دھتکارے جانے والے ’’جوان خون‘‘ کو پارٹی میں شامل کرنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں، کیا انداز سیاست ہے؟ اتنے سال کار زارے سیاست میں گزارنے کے باوجود آپ کے تحکمانہ اور تفخرانہ لب ولہجے میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی اپنی ادائوں میں کوئی عوامی رنگ بھرنے کامیاب ہوئے ہیں، شاہانہ طرز، ہروقت کا ایگریسو موڈ اور دوران خطاب لوگوں کو تحقیر آمیز انداز میں جھاڑ پلانے کا عمل عوامی لیڈر کی جھلک نہیں دے رہا، دھرنے میں تو امپائر کی انگلی نہ اٹھ سکی لیکن عوامی اور نجی محافل میں آپکی اپنی انگلی کھڑی ہی رہتی ہے، بلاشبہ حکمرانوں کی بے پناہ غلطیوں اور ناکام طرز حکمرانی کے سبب آپکی مقبولیت میں شدت سے اضافہ ہوا ہے لیکن آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ عوام کو آپ پر مان ہے اور وہ امید بھی لگائے ہوئے ہیں اور یقیناً اس کا فائدہ بھی آپ اٹھا سکتے ہیں لیکن کیا عوامی رنگ میں رنگے بغیر اور صوبے کو ترقی کی عظیم مثال بنائے بنا، آئندہ انتخاب میں کامیابی کا زینہ طے کرنا آسان ہوگا۔ حکمرانوں کے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ تو کرکٹ پر بھی توجہ نہیں دے سکے، آج کرکٹ کی حالت کو استوار کردیتے تو لوگ عمران خان کے سنہری کرکٹ کے دور کو ہی کچھ دیر کے لئے بھلا دیتے۔
پیپلزپارٹی کی کارکردگی پر تو اب سوال بھی ختم ہوگئے ہیں، ان کی کارکردگی عجیب سے زیادہ محکوم عوام کے لئے غریب ہوگئی ہے،9 سال سے بڑے صوبے میں حکمرانی کرنے والی جمہوری جماعت کی دعویدار پارٹی کا جمہور کے مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، کچرا اٹھانے اور شہر وگوٹھوں میں صحت وتعلیم جیسے مسائل پرایک ہوکر آواز اٹھانے کا عملی نمونہ اس سے بڑا کیا ہوسکتا ہے کہ شریک چیئرمین کے قریبی ’’گم شدہ‘‘ دوستوں کی بازیابی کے لئے پارلیمنٹ کے گزشتہ سیشن میں ایک ہنگامہ اٹھائے رہی، مسلسل واک آئوٹ اور حکومت کی ہزیمت کے لئے کورم کی نشاندہی کو معمول بنائے رکھا، جی ہاں ’’ڈیل‘‘ کہنے کی بجائے، کارکردگی کہیے کہ دوست بازیاب ہوگئے، یہی عوام کی فتح ہے؟ عوام کو یقین ہے کہ آپ جمہوریت کے نام پر جس ڈھول کو پیٹتے رہے ہیں ووٹ کے وقت وہ اس کی آواز سے نابلد ہوجائیں گے اور آپ کی کارکردگی ہی ان کی آنکھوں کو خیرہ اور ذہن ودل کو جلا واطمینان بخشے گی، جب ’’آپ سب‘‘ اپنی کمزوریوں اور نااہلیوں کے سبب ’’ڈلیور‘‘ کرنے میں ناکام ہوجاتےہیں تو پھر الزام ’’طاقت وروں‘‘ پر لگا دیتےہیں، اب اس روایت کو بھی بدلنا آپ کی ذمہ داری ہے، کہتے ہیں کہ لیڈر اور حکمران میں فرق یہ ہوتا ہے کہ لیڈر آئندہ وقت اورنسل کے لئے سوچتا ہے اور حکمران آئندہ الیکشن لڑنے اور کامیاب ہو کر حکومت بنانے کے بارے میں سوچتے ہیں، انگریزی لغت میں اس سوچ کوShort Sight کہا جاتا ہے لیکن میں اس کو Wrong sightکہتا ہوں کیوں کہ ہمارے حکمران دور کا سوچتے ضرور ہیں لیکن ہمیشہ غلط سوچتے ہیں۔

.
تازہ ترین