• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین مئی کو لاہور میں ہی کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز یعنی (سی پی این ای) کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا چونکہ خادم اس کی مجلس عاملہ کا بھی رکن ہے اس لئے اس میں بھی شریک ہونا تھا۔ مجلس عاملہ کے اجلاس کے فوراً بعد میاں شہباز شریف کی طرف سے چائے پر بلالیا گیا تھا وہاں پہنچے پانچ بجے ملاقات شروع ہوئی وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک محترم رکن کے سوال پر ان کے سوال سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے حالات زندگی جو ان کے دادا محترم سے شروع ہو کر ان کے والد محترم سے ہوتے ہوئے ان کے کارخانوں اور تمام املاک کو حکومت کی طرف سے قبضہ کرلینے اور اس کے بعد تنگ دستی اور مشکل حالات کے تذکرے سے وہ دل گرفتہ ہو گئے ان کی آوازبھرا گئی۔ تب اچانک موضوع تبدیل کر کے انہوں نے ہمارے ساتھیوں کے سوالات کے جوابات دینا شروع کردئیے لیکن ڈان لیکس اور پاناما لیکس کے بارے میں کئے گئے سوالات کو خوب صورتی سے ٹال گئے یوں تو جواب دیئے لیکن وہی بات کہ سوال کھیت کا کیا گیا اور جواب کھلیان کا دیا گیا تقریباً ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کی ملاقات رہی جس میں مختلف موضوعات پر خوب سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
اسی شام گورنر پنجاب کی طرف سے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا گورنر پنجاب ایک سلجھے ہوئے قانون دان ہیں پہلے سی پی این ای کے صدر جناب ضیا شاہد نے ان کا طویل ذاتی تعارف کرایا اور پھر مختصر تقریر گورنر صاحب نے کی اور پھر دو تین احباب نے چند سوالات کئے جن کا جواب انہوں نے دیا پھر انہوں نے کہا کہ آئیں کھانا تیار ہے پہلے کھانا کھا لیا جائے پھر کیا تھا کھانا کھا کر ہم اپنی راہ لگے اور یوں یہ دو دن کا سفر مکمل ہوا۔
لاہور میں دو دن گزارنے میں یوں تو بہت کم وقت ملا کہ لوگوں سے میل ملاقات ہوئی لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں اور بہت سی باتیں سننے کو جاننے کو ملیں عام لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے وکلا نے میاں صاحب کو پھنسا دیا ہے کچھ کا خیال ہے کہ کچھ نہیں ہونا اس ساری کارروائی سے میاں صاحب کے حق میں بہتری ہوئی ہے، کچھ مخالفین کا خیال تھا کہ میاں صاحب گھر کے بھیدیوں کو بچاتے بچاتے کہیں خود ہی شکار نہ ہو جائیں غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔میاں صاحب کے مخالف جناب عمران خان کے خلاف بھی غیر ملکی فنڈ اور آف شور کمپنی کا معاملہ سپریم کورٹ میں پیش ہے بلکہ ان کے مخالف وکیل کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان کی دفعات کے تحت عمران خان میاں صاحب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے تجویز کردہ جے آئی ٹی تشکیل پا چکی ہے اس کے تمام ارکان عدالت عظمیٰ کی منظوری سے نامزد کئے جا چکے ہیں اس جے آئی ٹی کو اپنی پہلی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق 22 مئی کو پیش کرنا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحقیق و تفتیش کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے اور پاناما کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
پاناما لیکس کے معاملے کے ساتھ ہی ایک دوسرا اور بڑا ہی اہم معاملہ ڈان لیکس کا ہے جس میں حکومتی رپورٹ کورد کردیا گیا ہے۔ حکمران ہر دو مقدمات میں گردن گردن پھنسے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اگر حکمرانوں نے ڈان لیکس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور خواجہ آصف کے قول کے مطابق کہ وقت گزرنے پر لوگ سب کچھ بھول جائیں گے عمل کیا تو یہ حکومت اور حکمرانوں کی بہت بڑی غلطی ہوگی ایسا نہ ہو کہ پھر انہیں اپنی غلطی کے ازالے کا موقع بھی نہ ملے، معاملہ چونکہ قومی سلامتی کا ہے اس لئے بہت احتیاط اور سمجھداری کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ قومی سلامتی کی نذر سب ہی کچھ ہوجائے اور حکمراں ہاتھ ملتے رہ جائیں اور پانی سر سے گزر جائے حکمران اصل شکار کو بچانے کے لئے اپنے وفاداروں کی قربانی دے رہے ہیں جو بظاہر تو قبول نہیں کی جا رہی، کیونکہ اندازہ کیا جاسکتا ہے دوسری جانب اس کی تحقیق مکمل کرلی گئی ہے اور وہ اصل شکار تک پہنچ چکے ہیں لیکن وہ چاہ رہے ہیں کہ حکمراں خود اس سے پردہ اٹھائیں تاکہ ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکمراں وقت اپنے مقام و مرتبے سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں اور اگر صورتحال یہ ہی رہی تو میاں صاحب کے لئے مشکلات میںاضافہ ہوگا جو آج کل ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں وہ پے در پے عوامی رابطہ مہم میں مصروف نظر آرہے ہیں اور اپنے ہر جلسے میں وہ بہت سے اعلانات کر رہے ہیں اربوں کے فنڈ دینے کے اعلانات اور طبی سہو لتیں فراہم کرنے کے وعدے کر رہے ہیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں دراصل وہ اپنے آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہے ہیں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں وہ اس طرح اپنا خوف مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کچھ مخالفین کا خیال ہے کہ حکومت زیادہ دیر چلنے والی نہیں کچھ کا خیال ہے کہ الیکشن تو ابھی بہت دور ہے پہلے ہی فیصلہ ہوجائے گا اور میاں صاحب کہیں کے نہیں رہیں گے۔
میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کے تمام تر اعلانات اور وعدوں کے باوجود نہ تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہو رہی ہے نہ ختم ہو رہی ہے دیہی علاقوں کا تو برا حال ہے میاں صاحب اور ان کے حمایتوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ دیہی علاقوں میں بجلی نہ پہنچانے اور طویل لوڈشیڈنگ کے باعث زراعت کے لئے پانی میسر نہیں ہوسکے گا جب بجلی نہیں ہوگی تو ٹیوب ویل کیسے چلیں گے جب ٹیوب ویل نہیں چلیں گے تو زراعت کیسے ممکن ہے فصلیں کیسے بہتر نتائج دے سکیں گی۔ دیہی علاقوں کی بات تو اپنی جگہ شہری اور مضافاتی علاقوں میں بھی بجلی نایاب اور کمیاب ہے۔ میاں صاحب کو بیک وقت تین محاذوں کا سامنا ہے ایک پاناما ان کے پائوں کی زنجیر بن رہا ہے، دوسرے ڈان لیکس ان کے گلے پڑ گیا ہے، تیسرا جلد یعنی اگلے سال الیکشن آنے والے ہیں اس کی تیاری کیسے اور کب کریں گے فی الحال تو انہوں نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے آج کل وہ اپنے خوف کو الیکشن الیکشن کھیل کر دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ وطن عزیز کی اور اہل وطن کی حفاظت فرمائے، آمین۔

.
تازہ ترین