• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اداروں کے ساتھ کیا ہوا؟

حکومت یا حکمرانوں کے کچھ کہنے اور سننے کی طاقت، توانائی، سمیت اور جرأت کا ثبوت دینے والے اداروں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے معیار اور برداشت سے پتا چلتا ہے کہ ان کے تحت ملک کے لوگوں کو قانون کی حکمرانی، انسانیت کے معیاروں اور فطرت کے تقاضوں کا کس قدر احترام چاہیے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے ابتدائی ربع صدی کے عرصے میں قانون، انسانیت اور فطرت کا اچھا خاصا احترام موجود رہا اور اس احترام نے ہمیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایسے دلچسپ اور کارآمد پروگرام پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جو عالمی سطح کے معیاروں کو چھونے کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور عوام الناس میں بے حد مقبول بھی ہوئے ان پروگراموں میں ہم نے ریڈیو کی قابل فخر آواز موہنی حمید سے لے کر آوازوں کے بے مثل اور بے بدل جادوگر خالد عباس ڈار کی معجزہ بیانیوں سے بھی بے حد متاثر ہوئے جو بلاشبہ اس شعبہ کے استادوں میں شمار ہوتے ہیں اور ایک بہت بڑے طبقے کی استادی کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔ حیوان ناطق کے نطق کی قوت کے استعمال میں جن خوبیوں سے خالد عباس ڈار نے کام لیا وہ خوبیاں ’’بابائے پنجابی ‘‘ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نواسے سہیل احمد تک پہنچتے وقت مزید گوناں گوں خوبیوں کا سرچشمہ بن گئیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالد عباس ڈار اور سہیل احمد نے اپنی اس ’’خوبی‘‘ کو انسانیت کی مثبت خدمت کے لئے استعمال کیا اور عالمی سطح کی شہرت حاصل کی۔ ان کی شہرت کے قریب پہنچنے کی کوشش میں ہمارے بہت سے فن کاروں نے اجتماعی سطح پر میلے لگائے مگر ان کی ذاتی کوششوں کی سطح کو چھونے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ یہ شاید پاکستان کی بدقسمتی ہے خالد عباس ڈار اور سہیل احمد کے بعد معیاری مزاح گوئی کے میدان میں بہت کم لوگوں کو آگے آنے اور آگے رہنے کا موقع ملا ہے۔ ایک لحاظ میں خالد عباس اور سہیل احمد اس میدان میں وہی مقام رکھتے ہیں جو پاکستان کی فلمی صنعت میں نور جہاں اور محمد رفیع کو قدرت کاملہ نے فراہم کیا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں عوامی دلچسپی کا عنصر غائب ہوتا چلا گیا۔ اس معاملے میں کچھ ابتدائی منفی اثر مولانا کوثر نیازی کا بھی ہوسکتا ہے مگر شگفتہ بیانی یا مزاح کا گلا گھونٹنے والے جنرل ضیاء الحق ثابت ہوئے جو ’’مرد حق اور مرد مومن‘‘ بھی کہلاتے تھے۔ اب ان دونوں ذرائع ابلاغ کی حالت یہ ہے کہ خالد عباس اور سہیل احمد کی عدم موجودگی میں ایک طویل خاموشی کے علاوہ سننے اور دیکھنے کونہیں رہ گیاان اداروں کی بنیادیں رکھنے والوں کو اس میں کوئی قصور دکھائی نہیں دیتا۔ سب قصور ان اداروں کی بنیادیں کھودنے والوں کا ہی دکھائی دے گا، بے شک تحقیقات یا سروے کروا کے دیکھ لیں!

.
تازہ ترین