• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُن دھڑوں کو یقینا سخت صدمہ سہنا پڑا ، اور بعض کے ہاں تو صف ِ ماتم بھی بچھی ہوئی ہے ، جوایک منتخب شدہ حکومت اور فوج کے درمیان ڈاگ فائٹ دیکھنے کی تیاری میں تھے ۔ بلکہ اب وہ فوجی ہائی کمان کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں کہ اگر ڈان لیکس کوئی ایشو تھا ہی نہیں تو کیوں کہا جارہا ہے کہ یہ طے ہوگیا ہے ۔ ذرا اُن افراد کی ذہنی حالات کا تصور کریں (حوالدارمیڈیا ایک نامناسب ، بلکہ اخلاقی طور پر گری ہوئی اصطلاح ہے کیونکہ حوالدار ایک قابل ِ عزت سپاہی ہے جو سرکاری فرائض سرانجام دیتا ہے )جو ایک نامناسب ٹویٹ کو واپس لینے کے اقدام کو 1971 ء کے سرنڈر کے مشابہہ قرار دے رہے ہیں۔
کیا ہمیں ایسے اذیت پسندوںاور جھوٹا بیانیہ گھڑنے اور پھیلانے کے فن کے ماہرین کے ہوتے ہوئے کسی اور دشمن کی ضرورت ہے ؟1971ء کا المیہ اس لئے پیش نہیں آیا تھا کہ ہماری فوج لڑنا نہیں چاہتی تھی ، بلکہ اس لئے کہ آزادی کے بعد بنائی جانے والی ہماری ریاستی پالیسیوں نے بنگالیوں کو باور کرادیا تھا کہ وہ ’’غیر ‘‘ اور ہم سے ’’کمتر درجے کے پاکستانی ‘‘ ہیں۔ چنانچہ وہ اس نتیجے پر پہنچنے پرمجبور ہوگئے کہ اُن کا بہترین مفاد الگ وطن حاصل کرنے میں ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق تعصب کی فراوانی اور تدبر کے فقدان کا نتیجہ تھی ۔ اس کی ذمہ داری فوجیوں کی بزدلی پر عائد نہیں ہوتی ۔
ایک حوالے سے 1971 ء کی تشبیہ برمحل بھی ہے۔ فوج اور سویلین حکومت کے درمیان تصادم دیکھنے کی خواہش آئین کی بالادستی اور سول ملٹری تعلقات سے کورچشمی کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے ۔ یہ تاثر غلط ہے کہ چونکہ وردی پوشوں کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے ، اس لئے جب وہ اچھے نتائج کے لئے مداخلت کرتے ہیںتو اُن کی پیشہ ورذمہ داری اور ساکھ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ادارے ، جیسا کہ فوج اور عدلیہ ، اپنی بنیادی ساخت کے اعتبار سے غیر جانبدارہوتے ہیں۔ اُن کی طرف سے اپنی آئینی حدود سے قدم باہر نکلنا سیاسی نتائج کا حامل ، چنانچہ افسوس ناک ہوتا ہے ۔ کون ساپیشہ ور سپاہی، نظم اور قواعد کی پابندی جس کی تربیت کا حصہ ہو، کسی میجر جنرل، یا حتیٰ کہ آرمی چیف کے کسی ایسے سر عام بیان کی حمایت کرسکتا ہے جس میں ملک کے چیف ایگزیکٹو کے حکم نامے کو مسترد کیا گیا ہو ؟کسی حکم پر اختلاف ِ رائے رکھنا ، اور اسے سرعام مستردکر دینا دو مختلف باتیں ہیں۔ کیا ایک جی سی او(GCO) جی ایچ کیوسے جاری ہونے والے حکم کو مسترد کرسکتا ہے ؟
اگرچہ اس بات پر ذی فہم دماغ بحث کرسکتے ہیں کہ کیا ڈان لیکس قومی سلامتی کا معاملہ تھا یا نہیں، لیکن اس پر کسی کو انکار نہیں کہ ٹویٹ نامناسب تھی ۔ آئین کا آرٹیکل 243 بہت واضح الفاظ میں کہتا ہے ۔۔۔’’مسلح افواج ملک کی وفاقی حکومت کی کمانڈ اور کنٹرول میں ہوں گی۔ ‘‘آرٹیکل 244 فوجیوں کو تھرڈ شیڈول کے مطابق حلف اٹھانے کا پابند کرتا ہے ۔ ہر فوجی حلف اٹھاتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔’’میں پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائوں گا، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ، جوعوام کی خواہشات کا آئینہ دار ہے ، کو مقدم سمجھتے ہوئے اقرار کرتا ہوں کہ میں کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیںلوں گا،اور پوری ایمانداری سے قانون کے مطابق پاکستان کی خدمت کروںگا۔ ‘‘
قانون اور اس کے نفاذ میں ہر جگہ کچھ فرق ہوتا ہے ، لیکن پاکستان میں ان کے درمیان ایک خلیج سی حائل ہے۔ پاک فوج اتنی ہی منظم ہے جتنی کوئی فوج ہوسکتی ہے ۔ اس کی ہائی کمان کے خلاف کبھی جونیئر افسران کی طرف سے کامیاب بغاوت دیکھنے میں نہیں آئی۔ کیا کسی کو شک ہے کہ اگر کوئی افسر اپنے سینئر کے احکامات کو کھلے عام مسترد کردے تو اس پر فوری طور پر سخت کارروائی عمل میں آئے گی؟مستحکم جمہوریتوں میں یہی اصول سویلینز کی بالادستی سے سرتابی پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ پاکستان اس جمہوری پختگی سے گو خاصا دور ہے ، لیکن اس کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اس مرحلے پر فوج پر سویلینز کے کنٹرول کاتصور بہت سوں کو ہضم نہیں ہورہا ۔ ایسے لوگ فوج کو آئین سے بلند ایک ایسا ادارہ سمجھتے ہیں جو دیگر آئینی اداروں پر نظر رکھنے کا حق رکھتا ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ اتھارٹی کا سرچشمہ آئین ہے ، اور کسی بھی ریاستی ادارے کو حاصل اتھارٹی قانون کی ہی تفویض کردہ ہوتی ہے ، بہت سے دھڑے اس سوچ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں کہ فوج ملک میں اپنی مرضی سے طاقت کے استعمال کا حق رکھتی ہے ۔ کوئی ایئریا نیول چیفس سے اپیل کیوں نہیں کرتا کہ وہ آگے بڑھ کر ملک کی خدمت کریں؟
ایگزیکٹو، عدلیہ اور قانون ساز باڈی ریاست کے تین ستون ہیں۔ فوج آئینی طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت ہے ۔تاہم ہمارے دستوری سفر میں حائل خلیج، جو ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے، کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم سویلین حکومت کو ایگزیکٹو تو مانتے ہیں لیکن فوج کو ایک آزاد اور سویلینز سے بالا دست ادارہ سمجھتے ہیں۔ اس خلیج کو پرُ کرنے اور سول اور ملٹری اداروں کے درمیان تنائو کم کرنے لئے ہمیں شناخت کے اس عمل کو درست کرنا ہے جس میں سویلینز پر ’’غیر ‘‘ کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔ اس بات کی تفہیم بہت مشکل نہیں کہ مستقبل میں مشرق ِوسطیٰ کی بادشاہت اور امارت قائم نہیں رہے گی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے انتہا پسند گروہ ، جیسا کہ داعش ، مغرب کی نہیں بلکہ اسلامی ریاستوں ، ان کے کمزور اداروں اور بنیاد پرستانہ عقائد کو پھیلانے کی دھن کا نتیجہ ہیں۔ ہم اس بات سے لاعلم نہیں کہ غربت، مذہب کی من پسند تشریح، عوام کی لاچاری اور حق تلفی ایک خطرناک نظریاتی زہر کا باعث بنتی ہیں۔ خطے کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک طاقتور فوج کی ضرورت ہے ۔ صرف فوج ہی ہمیں دہشت گردوں اور بنیاد پرستوں سے بچا سکتی ہے ۔
لیکن ہمیں ایسی فوج کی ضرورت نہیں جو خود کو سیاسی معاملات میں حرف ِ آخر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہو، یا وہ حکومت کے مخالفین کو کچلنے میں اس کا آلہ کار بن جائے ، یا پھر اس کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت ایک منتخب شدہ حکومت کو کمزور کردے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ناقص گورننس سسٹم بھی بہت سی غٖلط کاریوں سے بھر ا ہوا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی سے لے کر کسی نسلی گروہ کو حاصل امتیاز احتساب کا راستہ روک لیتا ہے ۔
اس کے علاوہ سیکورٹی، حب الوطنی اور قومی مفاد کے محدود اور من پسند تصورات کا بھی ناقدانہ انداز میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارا سول ملٹر ی عدم توازن غلط ڈویژنز قائم کرتا ہے ۔ ہم ایک منتخب شدہ حکومت کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی اس کوشش کو بھی ناپسند کرتے ہیں جس کا مقصد سول ملٹری تعلقات پر عوامی حمایت حاصل اور ایگزیکٹو کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن جب فوج اپنی حدود سے باہر قدم نکالتے ہوئے ایک سویلین حکومت کو ڈسپلن سکھانے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے سامنے ایک الجھن ہوتی ہے کہ کیا ہم آئینی اصولوں کا ساتھ دیں یا طاقت کے ننگے استعمال کا، چاہے اس کا مقصد کتنا ہی احسن کیوں نہ بتایا جائے ۔
آپ کا دل کہتا ہے کہ وزیر ِاعظم اپنے خاندان کے اثاثوں کی بابت سچ نہیں بول رہے ،لیکن کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ محض قیاس آرائیوں اور الزامات کی بنیاد پر اُنہیں منصب سے ہٹا دے ، اور ایسا کرتے ہوئے ایک غیر منتخب شدہ ادارہ طاقت کے لامحدود استعمال سے یہ طے کرے کہ ایگزیکٹو بننے کا حق کسے حاصل ہے ؟یا کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آئین اور قانون کے مطابق طریق کار اختیار کیا جائے ، ملزم کو شک کا فائدہ دیا جائے اور قانون کے اصولوں کے مطابق فیصلے کیے جائیں، چاہے ان کا مطلب یہ ہو کہ وزیر ِاعظم کو کوئی نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے ؟
دراصل ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ، اُن کا کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ ہمارے گورننس سسٹم کاوصف راتوں رات تبدیل نہیں ہوجائے گاچاہے فوج نواز شریف کو اتنا کمزور کردے کہ 2018 ء کے عام انتخابات میں اُن کے حریف اُن کا سیاسی طور پر صفایا کردیں۔ کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟اگر سپریم کورٹ ایک غیر معمولی کیس میں ایک وزیر ِاعظم ، جو بظاہر پورا سچ بولتے دکھائی نہیں دیتے ، کو کسی ٹرائل کے بغیر منصب سے ہٹا بھی دے تو کیا اس سے پاکستان میں احتساب کی روایت مضبوط ہوجائے گی؟غیر معمولی مداخلت سے اداروں کے ارتقا کا راستہ ہموا ر ہونے کی بجائے مسدود ہوتاہے۔ اگر ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو نواز شریف کو منصفانہ ٹرائل کے بعد سزا ہونے دیں۔ اور اگرعدالت میں ایسا نہیں ہوتا تو اگلے عام انتخابات میں عوام کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی شعور کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیں۔ بات یہ ہے کہ اگر سیاسی اداروں کو مضبوط کرنا ہے تو ان کا ارتقا عدالت یا جی ایچ کیو کی بجائے سیاسی میدان میں ہونا چاہیے ۔ ہماری افسوس ناک تاریخ میں ہم نے دیکھا کہ جس دن آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے اور ہم یہ الفاظ سنتے ہیں۔۔۔’’پاک فوج اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ آئین کی سربلندی کو مقدم رکھے گی اور جمہوری عمل کی حمایت جاری رکھے گی‘‘، ہم اس دن پر نازاں ہوتے ہیں۔ یاد رہے، عوامی مقبولیت کی رو میں بہہ نکلنا جواں مردی نہیں۔ دلیر لوگ مقبولیت کی لہروں پر تیرنے کی بجائے اصولوں کی زمین پر کھڑے رہتے ہیں، چاہے اُن کا یہ اقدام کتنا ہی غیر مقبول کیوں نہ ہو۔ اسی طرح لیڈر بھی ماضی کو دہرانے کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ غلطی کہاں ہوئی اور پھر وہ اس کا تدارک کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

.
تازہ ترین