• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر نے تو کسی کو اپنے عمل کا حساب دینے سے اس لئے انکار کیا تھا کہ ’’سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے ‘‘ لیکن اگر مسئلہ عمل کا نہیں بلکہ اپنے علم کا حساب دینے کا ہوتا تو سوالات سے جان چھڑانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی،خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب سوالات پڑھائے گئے علم تک محدود ہوں۔ امتحانات کی سیڑھی چڑھ کر ہی بچے اعلیٰ تعلیم کی بالائی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور اس سفر میں اگلا مقام وہ ہے کہ جب امتحان کسی درس گاہ کے کمرے میں کسی ممتحن کی نگرانی میں نہیں دیا جاتا بلکہ زندگی کے مسائل سوال بن کر سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور جوابات کسی درسی کتاب یا پڑھائے گئے سبق سے ہی نہیں بلکہ اپنی عقل و فہم اور تجربے کی پوٹلی سے نکال کر دینا پڑتے ہیں۔ ان مشکل سوالات کے ساتھ آپ جو سلوک کرتے ہیں اسی سے آپ کے ملک آپ کے معاشرے اور خود آپ کی تقدیر بنتی ہے۔ پھر بھی کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جب کوئی بچہ یا بچی کسی چھوٹی جماعت میں اپنا سبق یاد کرتی ہے اور پھر سالانہ امتحان کا ورق پلٹ کر آگے بڑھتی ہے۔ بعد میں بورڈ کے بعد یونیورسٹی کے امتحانات کی سرحد پار کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر چھوٹی جماعتوں یا میٹرک انٹر کے امتحانات میں نقل کی گنجائش پیدا ہوتی رہے تو نوکری کسی کو کہیں بھی مل جائے اور ہیر پھیر کے کتنے ہی امکانات کیوں نہ پیدا ہو جائیں، ملک اور معاشرے کی تقدیر کا بگڑنا لازمی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں نقل ایک الگ مضمون کی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور نہ جانے کتنے طالب علم بس اسی ایک مضمون میں ایمانداری سے پاس ہوتے ہیں۔ اتنی کہانیاں ہیں کہ نقل کیسے کی جاتی ہیں اور اس کے کتنے طریقے ایجاد کئے گئے ہیں۔ اسی لئے تو نقل مافیا کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ جرائم کی دنیا میں مافیا کو ناقابل شکست سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے جب انٹر کے امتحانات میں نقل کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو یوں لگا کہ اب اس کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک کے بعد دوسرا پرچہ آئوٹ ہوتا رہا اور امتحان شروع ہونے سے پہلے ہی اسے سوشل میڈیا کے ذریعے عام کیا جاتا رہا۔صورتحال اتنی بگڑ گئی کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو خود ایک امتحانی مرکز کا دورہ کرنا پڑا اور پوری سرکاری مشینری حرکت میں آ گئی کہ امتحانوں میں نقل کس طرح روکی جائے۔ پتہ نہیں اسی سلسلے میں غیر ملکی امداد کی کوئی درخواست کی گئی یا نہیں۔ البتہ وزیر اعلیٰ کا خود موقعہ واردات کا مشاہدہ کرنا اور احکامات جاری کرنا دو اہم باتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ حکومت بالآخر جاگ گئی ہے کہ امتحانوں میں کی جانے والی نقل کو روکنا ہے۔ اور اتنے سالوں بعد اب اسے برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ امتحانوں کے انعقاد جیسی معمولی بات ہمارے لئے آج اتنی مشکل ہے کہ اسے کرنے کے لئے ایک آپریشن کی ضرورت ہے۔ تو کیا اب وزیر اعلیٰ ٹریفک کنٹرول کرتے دکھائی دیں گے ؟ اس کا امکان یوں نہیں کہ جہاں وہ ہوتے ہیں وہاں ٹریفک بھی نہیں ہوتا۔سڑک صاف ہوتی ہے اور ٹیلی وژن پر پٹیاں چل رہی ہوتی ہیں کہ وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے شہر کے کتنے علاقوں میں ٹریفک جام ہے۔ ایمبولینس میں لیٹے مریض اپنی سانسیں گنتے ہیں کہ کب شاہ کی سواری(دونوں معنوں میں ) گزر جائے گی اور راستہ کھلے گا۔
بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ اور یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ راستے تو سارے بند ہیں۔ عام لوگوں کی زندگیاں محدود ہیں۔حالات کی قید میں وہ مسلسل اپنی رہائی کی آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ شاید امتحانوں میں نقل بھی اسی قید سے غیر قانونی طور پر فرار ہو جانے کی ایک کوشش ہے۔ اس کالم کا آغاز میں نے انٹر کے امتحانوں میں کی جانے والی نقل کے حوالے سے کیا تھا۔ اب آیئے ایک اور امتحان کاذکر کرتے ہیں اور کیا اس میں نقل کی جا سکتی ہے یا نہیں مجھے نہیں معلوم۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے امتحانات پاس کرنے والوں کو تو سرٹیفکیٹ ،ڈپلومایا ڈگری ملتی ہے۔ اب میں جس امتحان کا ذکر کر رہا ہوں اسے پاس کرنے والوں کو سرکار کی سب سے اہم ملازمتیں ملتی ہیں۔ جی ہاں، میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے منعقد کئے جانے والے سی ایس ایس کے امتحان کا ذکر کر رہا ہوں۔ 2016کے امتحان کا نتیجہ اس ہفتے بدھ کے دن جاری کیا گیا۔ یہ وہی دن تھا جب قوم کو ایک اور امتحان سے چھٹکارا ملا۔ یعنی ڈان لیکس کی ٹوئٹ واپس لے لی گئی اور فوج اور حکومت کے درمیان کشمکش کا تاثر ختم ہو گیا۔ ایک مختصر عرصے کے لئے ہی سہی، قوم نے سکون کی سانس لیا، البتہ اعلیٰ ملازمتوں کے امتحان کے نتیجے نے اعلیٰ تعلیم کے معیار کے بارے میں جاری تشویش میں اضافہ کر دیا ۔ جس نتیجے کا اعلان کیا گیا اس کے مطابق 19,643امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا۔ ان میں سے صرف202نے یہ امتحان پاس کیا۔ یہ سچ ہے کہ ایسے امتحانوں میں مقابلہ سخت ہوتا ہے۔ پھر بھی، اس امتحان میں کامیاب ہونے والوں کا تناسب کم ہوتا جا رہا ہے۔ 2016کے نتائج یہ بتا رہے ہیں کہ محض دو فیصد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ آپ یہ تصور کریں کہ 100نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں آپ کے سامنے موجود ہیں، انہوں نے اس امتحان کے لئے بڑی محنت کی ہے۔ اب ٹیوشن پڑھنے اور کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینے کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ ان سارے نوجوانوں نےخواب دیکھے ہیں، پھر یہ ہو کہ ان میں سے دو کو الگ کر کے 98سے یہ کہا جائے کہ اب آپ گھر جائیں، یہاں تناسب سے زیادہ معیار کا مسئلہ تشویش ناک ہے۔
یہ وہ موضوع ہے جس پر اس وقت ایک سرسری گفتگو ہی ممکن ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس صورتحال کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ سب کچھ تو دکھائی دے رہا ہے۔ امتحانوں میں کی جانے والی نقل یہ بتا رہی ہے کہ پاکستان میں انسانی وسائل کی ابتری کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے۔ پھر جس معاشرے میں میرٹ کا نظام نہ ہو وہاں علم اور ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کا دفاع کون کرے گا۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور اس آبادی میں نوجوانوں کی نمایاں اکثریت ہے، یہی نوجوان ہماری دولت ہیں اور یہی ہمارا عذاب ہیں۔ اعلیٰ ملازمتوں کے امتحان کے نتائج کا ایک روشن پہلو بھی ہے۔ کامیابی حاصل کرنے والے لڑکوں یا مردوں کی تعداد 114ہے اور لڑکیوں یا خواتین کی تعداد 85ہے۔ پھر پہلی تینوں پوزیشن خواتین نے حاصل کی ہیں۔ معاشرے میں خواتین کی کیا حیثیت ہے یہ دیکھئے اور پھر یہ سوچئے کہ شاید یہی خواتین ہماری نجات کا ذریعہ بنیں۔ معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنی سب سے بہادر اور پرعزم خواتین کو صرف اس لئے قتل کر دیتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کی جسارت کی۔ کالج اور یونیورسٹی کے امتحانوں میں بھی لڑکیوں کی فوقیت مسلم ہے۔لیکن اجتماعی سطح پر فکری، تعلیمی، اور تہذیبی پسماندگی کے سائے گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، مشال خان کی مثال بار بار ذہن میں آتی ہے ۔یونیورسٹی میں پڑھنے والے نوجوانوں کے لئے اب یہ کتنا مشکل ہے کہ وہ اپنے آپ کواور اپنی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان سوالات سے نبرد آزما ہوں جو بلوغت سے نوجوانی تک کے انتہائی دشوار سفر میں ایک امتحان بن کر ساتھ چلتےہیں۔

.
تازہ ترین