• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈان لیکس پر سول اور ملٹری طاقتوں کے درمیان معاملہ جس خوش اسلوبی سے حل ہوا اس کی داد دینا پڑے گی۔فریقین نے جس طرح ایک دوسرے کا مان رکھا وہ مثالی ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کچھ سوال تشنہ ہیں کہ پرویز رشید کا کیا قصور تھا؟ رائو تحسین نے کیا خطا کی تھی؟ طارق فاطمی کو کس بات کی سزا ملی ہے؟کیا کسی بھی خبر کو روکنے کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے؟ کیا ڈان لیکس واقعی ایسا معاملہ تھا کہ قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے؟ کیا خبرنہ روکنے والے مجرم کہلاتے ہیں؟ یہ سوالات اپنی جگہ درست مگر اس قضیے کا انجام اچھا ہوا ہے۔ لہذا جمہوریت کی بقا کے نام پہ اب ان سوالات کو دفن کر دینے میں ہی بھلائی ہے۔اس معاملے کے خوشگوا ر انجام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں میاں صاحب نے ماضی سے بہت سبق سیکھ لیا ہے وہاں اب اداروں کو بھی حکومت گرانے کا کوئی شوق نہیں رہا۔ ماضی میں یہی حالت ہوتی تو میاں صاحب ٹی وی پر نظر آتے، ہاتھ میں کاغذ لئے بلند آواز میں کہتے میںکسی سے ڈکٹیشن نہیں لے سکتا اور چند دن کے بعد حکومت سے فارغ کر دیئے جاتے۔ دوسری جانب اگر سول ملٹری تعلقات ماضی میں اس نہج پر پہنچ جاتے، تو اب تک عزیز ہم وطنو کا طبل بج چکا ہوتا ۔ اس دفعہ معاملہ ہماری تاریخ کی مثالوں سے مختلف نکلا۔ جمہوریت کا بول بالا ہوا۔ آئین کا وقار بلند ہوا۔ ووٹ کاا حترام ہوا۔ پارلیمان کا جھنڈا اونچا ہوا۔ پاکستان کامرتبہ بلند ہوا۔
اس معاملے کے افہام و تفہیم سے ختم ہونے میں سول حکومت سے زیادہ کریڈٹ ملٹری قیادت کو جاتا ہے۔ماضی میں اس سے کم باتوں پر اختلافات ہوئے۔ بچوں کی طرح بول چال بند ہوئی۔دل ہی دل میں طعنے دیئے گئے۔ ایک دوسرے پر الزام لگائے گئے اور سول حکومت کا بوریابستر گول کر دیا گیا۔ جنرل قمر باجوہ کی جمہوریت پسندی نے اس دفعہ معاملے کو ایک مثبت رخ دیا جس سے نہ صرف جمہوریت کا استحکام ممکن ہوا بلکہ حالیہ اقدامات سے قوم کی نظروں میں ، فوج کا وقار بھی بلند ہوا۔ وزیر اعظم کے امکانی نوٹیفکیشن پر جو مسترد والا ٹوئٹ آیا اس کی وضاحت دینے سے، اس کو واپس لے لینے سے، ملک کے سنجیدہ ، جمہوریت پسند حلقوں میں ایک اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اب لوگوں کو کچھ کچھ یقین آتا جا رہا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی۔ دو ہزار اٹھارہ میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے۔ جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے اورجمہوریت کش لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔وزیر داخلہ چوہدری نثار جب بھی مختصر پریس کانفرنس کرتے ہیں تو یقینا کوئی اہم بات ہوتی ہے۔ اس طرح کی پریس کانفرنس میں عموماََ چوہدری صاحب کوئی نکتہ ایسا چھوڑ جاتے ہیں جس پر پھر بہت بات ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر چوہدری صاحب نے جو پریس کانفرنس کی اس میں ایک جملے کی بازگشت ہم نے چینلوں پر بار بار سنی۔انہوں نے واشگاف الفاظ میں تنبیہ کی کہ سول ملٹری تعلقات کو تماشا نہ بنائیں۔ کسی ایک شخص، ادارے یا شعبے کی طرف انہوں نے واضح اشارہ نہیں کیا۔ بس تماشا نہ بنانے کی مناہی کر کےصحافیوں سے سوالات مانگے، صحافی بیچارے بیس منٹ تک سوال لکھواتے رہے اور جب جواب کی باری آئی تو چوہدری نے صاحب نے مسکرا کر صحافیوں کی طرف دیکھا اور پریس کانفرنس ختم کر کے چلے گئے۔اسی پریس کانفرنس میں چوہدری صاحب نے ایک ریٹائرڈ صاحب کا بھی ذکر کیا جو تجزیہ کار بنے چینلوں پر حکومتوں کو سبق سکھا رہے ہوتے ہیں۔ حکومت گرانے کے نت نئے گر بتا رہے ہوتے ہیں۔ا پنے تئیں فوج کے ترجمان بن کرسول حکومت کو عبرت ناک انجام کی خبر سنا رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا وزیر داخلہ کے اس جملے کا اشارہ ایسے دفاعی تجزیہ کاروں کے بارے میں تھا جو اب سیاسی تجزیہ کار بھی ہو چکے ہیں۔شاید ان کی مراد کوئی ایک شخص نہیں ہوگا بلکہ بہت سے چینلوں پر ایسے بہت سے تجزیہ کار وں کی طرف اشارہ کیا گیا ہوگا۔میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ چند چینلوں نے اپنے سارے پروگرام ہی اسطرح ترتیب دیئے ہیں کہ ریٹائرڈ افسران اس میں سیاسی تجزیہ کار بن کر شریک ہو سکیں۔ میری ذاتی رائے میں اگر کوئی سابق فوجی افسر ٹی وی کے کسی پروگرام میں شرکت کرتا ہے تو اس کے لئے کوئی باقاعدہ طریقہ کار وضع ہونا چاہیے اورفوج کے محکمہ تعلقات عامہ سے پیشگی اجازت درکار ہونی چاہیے۔چینلوں کو بھی دفاعی تجزیہ کار اور سیاسی تجزیہ کار میں فرق سمجھنا چاہئے۔ہو سکتا ہے کہ چوہدری نثار کے اس جملے کا مخاطب میڈیا ہو۔ اس لیے کہ جس بری طرح میڈیا پر ڈان لیکس کے حوالے سے سول ملٹری تعلقات کو تماشا بنایا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔چینلوں میں واضح تقسیم نظر آئی۔ چند چینل ان لیکس کے سہارے مارشل لا کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کے اینکر منسٹر بننے کا سوچ رہے تھے۔ چند مالکان شاباش کی تھپکی کے منتظر تھے۔کچھ پروگراموں میں عوام کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ حکومت غدار ہے، یہ جمہویت ڈھکوسلہ ہے، یہ عوام کے نمائندے فراڈہیں۔عوامی حکومت ریاست کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے۔ پیمرا نے اس بات پر احتجاج کرنے کی کوشش کی تو اس کو بھی دھمکیوں سے چپ کروانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن سول ملٹری مصالحت کی پالیسی نے ان کے ناپاک عزائم کوناکام بنا دیا ۔
چوہدری نثار کی گفتگو کی رمزیں جاننے کے لئے بڑی ریاضت چاہیے ہو تی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چوہدری نثار نے جب یہ کہا ہو کہ سول ملٹری تعلقات کو تماشانہ بنایا جائے تو ان کا مخاطب نہ اینکر ہوں نہ بے صبرے چینل ، اس جملے کے ممدوح نہ دفاعی تجزیہ کار ہوں نہ چینل کے مالکان ۔ بلکہ ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں سے مخاطب ہو ں جو خود اپنے حق میں اسلام آباد کی سڑکوں پر بینر لگواتے تھے ۔ ہو سکتا ہے وزیر داخلہ کا بیان ان لوگوں کے بارے میں ہوجو اپنے آپ کو کو میڈیا اور فوج کے درمیان ایک پل بتاتے تھے۔ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں کی بات کر رہے ہوں جو دھرنوں کے پیچھے چھپے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں سے مخاطب ہوںجو چینلوں میں ان لوگوں کو بھرتی کروانے پر مامور تھے۔
چوہدری نثار کا مخاطب جو بھی ہو ایک بات یقینی ہے کہ فوج نے ڈان لیکس پر اپنے اقدامات کی وجہ سے اپنے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ کی وجہ سے اس ملک کی ، اس جمہوریت کی، جوبدنامی ہوئی اس کو کمال دانش مندی سے دور کر دیا گیا۔اس پر فوج یقیناََ مبارکباد اورخراج تحسین کی مستحق ہے۔آخر میں ایک چھوٹی سی استدعا کہ جہاں جمہوریت کے لئے اتنی قربانیاں دی گئی ہیں وہاں اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹائم لائن سے وہ ٹوئٹ بھی ڈلیٹ کر دیا جائے تو جمہوریت پسند لوگوں کی نگاہ میں پاک فوج کی توقیر میںمزیداضافہ ہوگا۔جمہوریت کی تضحیک کا یہ سیاہ داغ تاریخ کے چہرے سے مٹادینا ہی اصل جمہوریت کی طرف ایک مضبوط قدم ہے،عوام کی حاکمیت مان لینے کا عزم ہے۔

.
تازہ ترین