• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت اور پاک فوج نے ’’ ڈان لیکس ‘ ‘ کا معاملہ حل ہونے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے لیکن یہ سوال پھر بھی موجود ہے کہ کیا یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا ہے ؟ اس کا سبب یہ ہے کہ حکومت نے ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ ابھی تک شائع نہیں کی ہے ۔ اس سے نہ صرف مذکورہ بالا سوال موجود رہے گا بلکہ مزید شکوک وشبہات بھی پیدا ہوں گے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے ۔ اس پر مزید بیان بازی حیران اور پریشان کن ہے ۔ ہمیں اب آگے بڑھنا چاہئے ۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ ڈان لیکس کا معاملہ سول ملٹری تعلقات کا ہے ۔ پوری دنیا میں سول ملٹری تعلقات کو انتہائی حساس معاملہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس پر تماشا لگانا چاہئے نہ سیاست کی جانی چاہئے۔ نیوز لیکس کے معاملہ پر نہ کوئی تلخی تھی نہ ناراضی ۔ سول ملٹری تناؤ پیدا کرنا پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے اگرچہ معاملہ طے کرنے پر عسکری قیادت کے مدبرانہ رویئے کی تعریف کی ہے لیکن اپوزیشن کی طرف سے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ ایسا نہیں ہے ، جسے محض سیاست کرنے یا تماشا لگانے سے تعبیر کیا جا سکے ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ ، وفاقی وزیر داخلہ کے اس موقف کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ نیوز لیکس کا معاملہ سول ملٹری تعلقات کا معاملہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کبھی بھی فوج اور حکومت کا معاملہ نہیں تھا ۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے ۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ ایسا کیا تھا ، جسے ’’ حل ‘‘ کیا گیا ۔ صرف سید خورشید احمد شاہ ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے تو قومی اسمبلی میں تحریک التوا اور سندھ اسمبلی میں قرار داد جمع کرا دی ہے ، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے ۔ تحریک انصاف نے اس طرح کی قرار دادیں سینیٹ ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں میں بھی جمع کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے علاوہ میڈیا میں بھی یہ معاملہ اٹھانے کی حکمت عملی طے کر لی ہے تاکہ رپورٹ منظر عام پر لانے کیلئے حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھایا جا سکے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کو اس ایشو پر اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہو گی ۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزرا اپنے بیانات میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اپوزیشن کی بعض سیاسی جماعتیں اور کچھ دیگر حلقے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کی مخالفت میں سول حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں اور ان کی یہ مبینہ کوشش ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے۔ چوہدری نثار علی خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سول ملٹری تناؤ پیدا کرنا پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا ہے لیکن یہ تاثر کسی بھی طرح درست نہیں ہے ۔
6 اکتوبر 2016 کو انگریزی روزنامے میں وزیر اعظم ہاؤس کے اندر ہونے والے ایک اجلاس کی خبر شائع ہوئی ۔ یہ اجلاس قومی سلامتی کے معاملات پر غور کرنے کے لئے بلایا گیا تھا ۔ شائع ہونے والی خبر سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قومی سلامتی کے ادارے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ۔ 13 اکتوبر 2016 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں ہونے والے کور کمانڈر کے اجلاس نے اس خبر پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ اس میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں تھا ۔ اپوزیشن نے فوج کو یہ ردعمل دینے کے لئے نہیں اکسایا تھا ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر اس وقت تشویش کا اظہار کیا ، جب پرائم منسٹر ہاؤس سے یہ بیان جاری ہوا کہ یہ خبر ’’ پلانٹیڈ ‘‘ ( Planted ) تھی ۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو وزیر اعظم نے اپوزیشن کے دباؤ پر برطرف نہیں کیا تھا اور نہ ہی اپوزیشن کے کہنے پر ڈان لیکس انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کے بعد بھی نواز شریف حکومت اور فوج کے مابین تعلقات میں جو اتار چڑھاؤ رہا ، اس میں بھی اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ حکومت اور عسکری قیادت کے مابین ڈان لیکس کا معاملہ طے ہوا تو پیپلز پارٹی سمیت زیادہ تر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اسے جمہوریت کے استحکام کے لئے خوش آئند قرار دیا ۔ سینیٹ میں تو اپوزیشن اور حکومت کی تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ فوج حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے ۔ لہذا اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنا درست نہیں ہے کہ وہ فوج کی مداخلت چاہتی ہیں ۔
ملکی سیاسی تاریخ میں ہونے والے تجربات کی روشنی میں اپوزیشن یہ مطالبہ کررہی ہے کہ قوم کو اس معاملے کا علم ہونا چاہئے ، جسے ’’ حل ‘‘ کیا گیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب تصور کیا جاتا ہے یا کم از کم ان کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں ۔ وہ بھی یہ معاملہ طے ہونے پر چیخ پڑے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ طاقتور کیلئے قانون الگ ہے اور کمزور کے لئے قانون الگ ہے ۔ یہی بات دیگر سیاسی جماعتیں یا چھوٹے صوبوں کے لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ بڑے صوبے کے وزیر اعظم کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا سلوک ایک ہوتا ہے اور چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعظم کے ساتھ سلوک دوسرا ہوتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کے بقول وزیر اعظم نواز شریف اداروں کے ساتھ پھر نیا تنازعہ پیدا کرلیں گے اور اپوزیشن پر الزام عائد کریں گے کہ وہ ان کے اداروں کے ساتھ تعلقات خراب کر رہی ہے ۔ اس تناظر میں اپوزیشن یہ جاننا چاہتی ہے کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ اس مرتبہ میاں محمد نواز شریف کو کیا رعایت دی گئی ہے اور بعد میں کمزور یا چھوٹے صوبوں کے لوگ اس رعایت کا استحقاق حاصل کر سکیں ۔ جب تک رپورٹ منظر عام پر نہیں آئے گی ، اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور قوم کے نزدیک ڈان لیکس کا معاملہ ختم نہیں ہو گا ۔



.
تازہ ترین