• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک یعنی پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بھی ایک فقرہ تواتر کے ساتھ سنتے آئے ہیں کہ فلاں صوبہ پاکستان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا فلاں صوبہ پاکستان کا مخالف ہے۔ جیسے بنگالیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں۔پھر یہی بات مختلف ادوار میں پختونوں اور سندھیوں کے بارے میں کہی جاتی رہی ۔ آجکل بلوچستان کے حوالے سے یہ بات بڑے زور شور سے کہی جارہی ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی یا آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ گویا ہر جگہ علیحدگی پسندی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ وہ’’ پاکستان‘‘ سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ’’ آخر پاکستان‘‘ کون ہے جس سے یہ عناصر علیحدگی اختیار کرنے کےخواہاں ہیں۔ کیونکہ پاکستان تو تمام صوبوں اور جغرافیائی یونٹوں کا مشترکہ نام ہے۔ پھر کون کسِ سے علیحدگی چاہتا ہے۔ایک اور مطلب جو پاکستان سے لیا جاتا ہے اور جسے مفاد پرست عناصر کثرت سے استعمال کرتے ہیں وہ ہے’’ پنجا ب‘‘ گویا پنجاب ہی پاکستان ہے اور ساری نفرتیں پنجاب کے خلاف ہیں۔ وہ پنجاب جس کا عام آدمی اتنا ہی مظلوم اور مفلوک الحال ہے جتنا کسیِ بھی دوسرے صوبے کا ۔ اس کے باوجود پنجاب کے ایک عام آدمی کی دوسرے صوبوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اس نے قیام ِ پاکستان کے وقت پنجاب کے اہم لیڈروں کو چھوڑ کر محمد علی جناح جیسی قدآور شخصیت کو قائدِ اعظم بنا دیا جو پنجابی نہیں تھے۔ یہ وہی پنجاب ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو قائدِ عوام بنایا اور 1970ء کے الیکشن میں لاہور سے اس سیٹ پر کامیاب کرایا جس پر ان کے مقابلے میں جسٹس جاوید اقبال الیکشن لڑرہے تھے۔ جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے صاحبزادے ہیں جنہیں ایک عام پنجابی ’’پیر‘‘ کا درجہ دیتا ہے۔ یہی نہیں ایک سندھی یعنی ذوالفقار علی بھٹو کی خاطر پنجابیوں نے کوڑے کھائے اور خود سوزیاں کیں ۔ جو کہ سندھ میں بھی نہیں ہوئیں ۔ بحالی جمہوریت کی ہر تحریک میں پنجابی عوام نے لازوال قربانیاں دیں۔ تحریکِ بحالیء عدلیہ کے لئے بھی سب سے زیادہ تحریک پنجاب میں چلی حالانکہ معزول جسٹس افتخار محمد چوہدری کا تعلق صوبہء بلوچستان سے تھا۔ لیکن عوام نے صوبائی معاملے میں کبھی تعصّب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور اسے آج دنیا کا سب سے زیادہ ’’غیر محفوظ ‘‘ ملک بنانے والے آمروں اور بیوروکریٹس کا تعلق بھی پنجاب سے نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود پنجاب نے دوسرے کسی بھی صوبے کو من حیث القومیّت ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔پھر وہی سوال آجاتا ہے کہ ’’ آخر پنجاب سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟‘‘کیا پنجاب پاکستان میں امن کا گہوارہ ہے؟کیا پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟کیا پنجاب میں غربت ، بے روزگاری اور دیگر معاشرتی مسائل نہیں پائے جاتے جو دوسرے صوبوں میں موجود ہیں؟اگر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ عوامی سطح پر صرف پنجاب ہی پاکستان نہیں اور جو لوگ صوبائی منافرت کے ذریعے پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ وہ اپنے صوبے کے عوام کے دوست نہیں بلکہ اپنے مفادات کے غلام ہیں۔یار درکھیے کوئی صوبہ، یا زمین کا ٹکڑا بحیثیت مجموعی اچھا یا بُرا نہیں ہوتا کسی مذہب ، عقیدے ، نظریے یا فلسفے کو ماننے والے بحیثیت مجموعی اچھّے یا بُرے نہیں ہوتے۔ ان میں اچھّے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ دنیا کی پوری تاریخ طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے جس میں صرف دو طبقے ہیں ایک ظالم کا اور دوسرے مظلوم کا یا ایک حاکم کا دوسرا محکوم کا یا آسان ترین لفظوں میں ایک طبقہ اچھّے لوگوں کا ہے اور دوسرا بُرے لوگوں کا۔ ان اچھّے اور بُرے لوگوں میں ہر صوبے ، ہر ملک ، ہر مذہب اور ہر زبان کے لوگ شامل ہیںیہ وہ تقسیم ہے جو آفاقی اور مثبت ہے جو تمام مظلوموںکو طاقت ور بناتی ہے جبکہ زبان ، رنگ ، نسل ، خطے اور مذہب کی تقسیم مظلوموں کو تقسیم در تقسیم کرنے کی ایک سازش ہوتی ہے تاکہ وہ یک مشت ہو کر ظالموں کے مقابلے پر طاقت ور نہ ہو جائیں۔
دراصل ’’ پاکستان‘‘ایک ایسا سہانا خواب تھا جو عوام نے اپنے سنہری مستقبل کے لئے دیکھا تھا۔ طبقاتی فرق، مذہبی منافرت اور دیگر مسائل سے پاک ، خوشحال پر امن اور ترقی یافتہ زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں زندگی آسان ہو، جہاں کسی سے نفرت نہ کی جائے ، جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے ۔ ہر انسان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق ہو۔ ہر مذہب ہر زبان اورہرکلچر کا احترام کیا جائے۔ جہاں انسان کی خود ساختہ تقسیمیں کم سے کم ہوں ۔ جہاں شہریوں کو ان کے تمام جائزاور انسانی حقوق حاصل ہوں…لیکن ایک ایسا سہانا سپنا جس کا نام ’’ پاکستان‘‘ تھا بہت جلد ایک ’’ڈرائونی حقیقت‘‘ بن گیا۔ جہاں شہریوں سے وہ انسانی حقوق بھی چھین لئے جو انہیں پہلے سے حاصل تھے۔ غیر مسلموں کو مسلم اور مسلمانوں کو ’’ حقیقی مسلمان‘‘ بنانے کے لئے مار دھاڑ شروع ہوگئی۔ مارشل لائوں کے جبر اور فسطائی مذہبی جنون نے تمام انسانی حقوق مذہب اور حب الوطنی کے نام پر چھین لئے جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ تما م صوبوں کے مراعات یافتہ طبقے اس خوفناک کھیل میں شامل تھے لیکن انہوں نے عوامی غیض و غضب کا رُخ اپنے آپ سے ہٹانے کے لئے ایک سازش کے تحت ’’ پنجاب ‘‘ کی طرف موڑ دیا ۔ جو خود بھی مجسّم استحصال زدہ اور مظلومیت کی تصویر تھا۔ ہر انسان ، بدامنی ، غربت ، استحصال ، مذہبی منافرت اور مار دھاڑ سے نفرت کرتا ہے وہ ایک بار کی زندگی سکون سے گزار نا چاہتا ہے ۔ اسی لئے پنجاب سمیت ہر صوبہ اس پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے جہاں جمہوریت نہیں ، جبر کا نظام ہے۔گویا وہ اس نظام کے خلاف ہے جو پاکستان میں آج تک رائج رہا ہے۔۔وہ یقینااس پاکستان میں رہنا چاہے گاجہاں حب الوطنی اور ایمان فروشی کے ٹھیکیدار یوں دندناتے نہ پھریں ۔۔۔ اور وہ پاکستان صوبائی منافرت سے نہیں ، طبقاقی نظام کو ختم کرنے سے تشکیل پائے گا۔



.
تازہ ترین