• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں وہ جو حکم دیں اس پر عمل ہونا چاہئے۔ یہ ہے جمہوریت کا وہ حاصل جس تک پہنچنے کیلئے ستر برس بیت گئے۔ مسلح افواج کے ترجمان کی طرف سے ادا کردہ یہ محض ایک جملہ یا چند الفاظ نہیں بلکہ پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ یہ صرف آئین کی سربلندی اور جمہوریت کی بالا دستی کا اعتراف ہی نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کا عزم بھی ہے۔ یہ فقط سنہری حروف ہی نہیں بلکہ کردہ اور ناکردہ غلطیوں کا کفارہ بھی ہے۔
یہ جمہوریت کی آبیاری کیلئے ٹھوس ضمانت ہی نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا عندیہ بھی ہے۔ عسکری قیادت کے اس غیر معمولی اقدام پر حقیقی شکریہ کہنا تو اب بنتا ہے، داد تحسین کے ڈونگرے تو اب برسائے جانے چاہئیں لیکن یہاں تو ملک دشمنوں کے ساتھ بعض اپنوں کے ہاں بھی صف ماتم بچھ چکی ہے۔ ان نادانوں کو کسی طور ہضم نہیں ہو رہا کہ ریاستی ادارے آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر ذمہ داریاں ادا کریں اور منتخب جمہوری حکومت کے سامنے جواب دہ ہوں۔ جلتی پرتیل چھڑکنے والوں کو برداشت نہیں ہو پا رہا کہ جو شعلے وہ بھڑکتے دیکھنا چاہتے تھے وہ کسی کا دامن خاکستر کئے بغیر کیسے ٹھنڈے پڑ سکتے ہیں۔ تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے… دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشا نہ ہوا
یہی وجہ ہے کہ امیدوں پر اوس پڑی تو تجزیے اور تبصرے کے نام پہ وہ بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ پیمرا کو بھی انتباہ جاری کرنا پڑا ہے۔ وہ جانیں اور ان کا ضمیر لیکن شر سے خیر کا جو پہلو برآمد ہوا ہے، یہ ہم جیسے جمہوریت پسندوں کیلئے کسی عید سعید سے کم نہیں ہے۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو یقین نہیں آ رہا کہ انہونی ہو چکی، تاریخ کا دھارا مڑ چکا اور جنہوں نے غیر معمولی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا وہ حقیقی معنوں میں عوام کے دلوں میں گھر کر چکے۔ آئین کی عملی طور پر پاسداری کا عزم ظاہر کرنے والوں کی قدرو منزلت میں وہ اضافہ ہو چکا کہ جس پر وہ بھی بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے کی رہنمائی بانی پاکستان نے یوم آزادی کی پہلی تقریب ہو یا اسٹاف کالج کوئٹہ کے افسران سے خطاب کا موقع، بڑے واضح انداز میں کر دی تھی۔ بھٹکتے ہوئے سات دہائیاں گزر چکیں، زاد راہ میں سے کچھ گنوا دیا اور کچھ لٹا دیا، منزل کی طرف جانے والا راستہ اب سجھائی دیا لیکن جب نشان منزل مل جائے تو رائیگاں سفر کی تکان بھی ختم ہو جاتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ جوش پر ہوش غالب آچکا لیکن دوسری طرف بال کی کھال اتارنے والوں میں وہ بھی پیش پیش ہیں جو بھاری قیمت بھی چکا چکے۔ حیرت تو یہ ہے کہ آئین کا حوالہ دے کر جمہوری حکومت کی بالادستی کا سوال اس چئیرمین سینیٹ کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے جو کبھی نہیں بھول سکتے کہ اسی آئین کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ محض چند کاغذات کا مجموعہ ہی تو ہے جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ یہی یاد دہانی بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی انہیں کرائی ہے کہ جناب جب زمینی حقائق بلکل مختلف ہوں تو نظام قواعد و ضوابط اور آئین کے تحت نہیں چلا کرتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے زیادہ زمینی حقائق کا ادراک اور کسے ہو سکتا ہے جس کے قائد کو آئین کی مومی ناک کے پھندے سے ابدی نیند سلا دیا گیا۔ پاکستان کا یہی تلخ ماضی ہی تو ہے جس نے10 مئی2017 ء کے دن کو تاریخ ساز دن بنا دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اگر یہی جذبہ کارفرما ہوتا، وزیراعظم کو فائنل اتھارٹی مان لیا جاتا اور آئین کی اسی پاسداری پر عمل درآمد کیا جاتا تو اسکندر مرزا کبھی آئین کے تقدس کو پامال نہ کرتے، پاکستان کی تاریخ میں سات اکتوبر 1958ء کا منحوس دن درج ہوتا اور نہ ہی ملک کبھی آمریت سے آشنا ہوتا۔
نہ کوئی آمر آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرتے ہوئے پارلیمانی نظام حکومت کو ختم کر کے صدارتی نظام رائج کرتا۔ آئین کی سربلندی اور جمہوریت کی بالادستی مقدم ہوتی تو کوئی آمر منشیات اور اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر آدھا ملک نہ گنوا دیتا، پاکستان کا نقشہ تبدیل ہوتا اور نہ ہی نوے ہزار فوجی دشمن کی قید میں جاتے۔ آئین کو مقدس دستاویز مان لیا جاتا تو چار جولائی 1977ء کو اسے پھاڑ کر نہ پھینکا جاتا، وزیراعظم کو سربراہ مملکت تسلیم کر لیا گیا ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو جیسا عالمی رہنما کبھی ہوس اقتدار کی بھینٹ نہ چڑھتا۔ سات برس تک ملک وزیراعظم کے عہدے سے محروم نہ رہتا۔
ضیاءالحق جیسا آمر گیارہ سال تک ملک پر عذاب بن کے مسلط رہتا اور نہ ہی اٹھاون ٹو بی جیسی تلوار جمہوری حکومتوں کے سر پر لٹکائی جاتی جس کا پہلا وار بھی انہوں نے اپنے ہاتھوں سے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو تحلیل کر کے خود ہی کیا۔ وزیراعظم کو بیک جنبش قلم گھر بھیجنے کی آمرانہ سوچ ہی تھی جس کا نشانہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو دو بار بنے۔ وزیراعظم کی آئینی حیثیت کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا تو پرویز مشرف سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارتا اور نہ ہی وزیراعظم کے ساتھ آئین کو دیس نکالا جاتا۔ عوام کے مینڈیٹ اور وزیراعظم کے عہدے کے تقدس کا احساس ہوتا تو اسمبلی کی تحلیل کا صدارتی اختیار دوبارہ بحال کیا جاتا اور نہ ہی وزیراعظم کے نام پر مہرے تبدیل کرنے کیلئے کٹھ پتلی تماشا سجایا جاتا۔ قارئین یہی وہ پس منظر ہے جس کی موجودگی میں آصف زرداری چاہے جمہوری انداز میں ملک کے صدر منتخب ہو جائیں یا یوسف رضا گیلانی وزیراعظم، پیپلز پارٹی کو پانچ سال ایک خوف کے سائے میں ہی پورے کرنا پڑتے ہیں۔ کیری لوگر بل کا معاملہ ہو یا سوئس حکومت کو خط لکھنے کا،حکومت صبح گئی یا شام کا دھڑکا لگا ہی رہتا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہ کرنے کا لاکھ یقین دلایا جاتا رہے لیکن ماضی کی پرچھائیاں آسیب بن کر ذہن پر سوار رہتی ہیں۔ چاہئے عوام بھرپور اکثریت سے نواز شریف کو تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کر دیں لیکن ایک سال کے بعد سیاسی جماعت کی طرف سے دئیے جانے والے دھرنے ہی سے جمہوری حکومت کی چولہیں ہلنے لگتی ہیں۔ امپائر اور اس کی انگلی کا تذکرہ زبان زد عام ہو جاتا ہے۔ ماڈل ٹاون سانحے میں بے گناہ افراد مارے جائیں تو اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا دکھائی دیتا ہے۔ دھاندلی پرجوڈیشل کمیشن تشکیل پاتا ہے تو عدالت کے ذریعے حکومت کی چٹھی کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا دائرہ پنجاب تک وسیع ہوتا ہے تو دال میں کچھ کالا دکھائی دینے لگتا ہے۔ پاناما پیپرز کی تحقیقات کیلئے ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک ہو جائے تو نظریں ادھر ادھر دیکھنے لگ جاتی ہیں۔ اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دی جائے تو حکومت کے لاک ڈاؤن کے قیافے لگنے لگتے ہیں۔ اہم عہدے کی معیاد پر تقرری کا وقت آئے تو بھی بے یقینی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ عدالت عظمی پاناما پیپرز مقدمے کی سماعت شروع کر دے تو حکومت کے خاتمے کا کاؤنٹ ڈاون شروع ہو جاتا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کاحکم صادر فرما دیا جائے تو قبل از وقت انتخابات کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ اور تو اور ایک خبر شائع ہو جائے تو حکومت خطرے میں گھری نظر آتی ہے جبکہ ایک ٹویٹ جی ہاں صرف ایک ٹویٹ جمہوریت کیلئے زہر قاتل قرار پائے تو پھر ایسی گھٹن اوراس حبس میں یہ اعتراف بلاشبہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں وہ جو حکم دیں ان پر عمل ہونا چاہئے۔

.
تازہ ترین