• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر اُس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر سے مشروط ہوتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ ہوں تو کرنسی مستحکم رہتی ہے لیکن اگر زرمبادلہ کےذخائر کم ہوں تو ایسی صورت میں مقامی کرنسی پر دبائو رہتا ہے جس سے کرنسی کی قدر گرتی جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ اپریل کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 104.80روپے اور قیمت فروخت 104.85روپے رہی جبکہ اوپن مارکیٹ میں قیمت خرید105.90روپےاورقیمت فروخت 106.10 روپے رہی۔ اسی طرح پاکستانی روپے کے مقابلے میں برطانوی پونڈ اور یورو کی قدر میں کمی جبکہ امریکی ڈالر، سعودی ریال اور امارتی درہم کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔پاکستان کے ایکسپورٹرز ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل 3سالوں سے کمی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کے خواہاں ہیں۔ ایکسپورٹرز چین، ترکی، بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہیں کہ اِن ممالک نے اپنی مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کرکے ایکسپورٹس کو بڑھایا ہے لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار روپے کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، اس لئے انہوں نے انٹربینک میں پاکستانی کرنسی کی قدرکو 104-105روپے کی حد پر رکھا ہوا ہے کیونکہ اگر روپے کی قدر میں کمی کی گئی تو پاکستان کے بیرونی قرضے راتوں رات بڑھ جائیں گے۔ مثال کے طور پر اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 5روپے کی کمی کی گئی تو اِس سے بیرونی قرضوں میں 330ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا جبکہ ملکی امپورٹس بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات اور خام مال مہنگے ہوجائیں گے جو ملک میں افراط زر اور مہنگائی کا سبب بنیں گے۔ ماضی میں پاکستان میں ڈی ویلیوایشن کے اثرات کوئی اچھے دیکھنے میں نہیںآئے۔ جب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی گئی، ایکسپورٹرز نے اِس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو منتقل کردیا اور ملکی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے میں پاکستانی کرنسی کی یکدم ڈی ویلیو ایشن کے خلاف ہوں اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا حامی ہوں۔ ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے حکومت کو ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس کیلئے حکومت کو ایکسپورٹرز کے دو سال سے 200ارب روپے سے زیادہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ایکسپورٹس پر عائد اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کو ختم کیا جائے اور بجلی و گیس کے نرخوں کو قابل برداشت بنایا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو پاکستان کے اہم تجارتی پارٹنرز کے ساتھ ترجیحی (PTA)اور آزاد تجارتی (FTA) معاہدے بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے جس سے ہمارے ایکسپورٹرز کو ان مارکیٹس میں رسائی مل سکے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی سہولت حاصل ہونے کے باوجود یورپی یونین ممالک کو ہماری ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جس کی ایک وجہ یورو اور پائونڈکی قدر میں کمی ہے۔ یورپی یونین کے 27ممالک میں پاکستانی ایکسپورٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ برطانیہ، دوسرے نمبر پر جرمنی اور تیسرے نمبر پر اسپین ہے۔ پاکستان کی جنوری سے دسمبر 2016میں برطانیہ کو ایکسپورٹس میں دو فیصد کمی ہوئی جبکہ اسی دورانئے میں جرمنی میں 2 فیصد، اسپین میں 6 فیصد، اٹلی، نیدر لینڈ میں 4 فیصد، بلجیم، سوئیڈن، ڈنمارک اور پولینڈ میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خطے میں اپنے مقابلاتی حریفوں کی کرنسیوں کا مقابلاتی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 2013کے بعد چین اور بھارت کی کرنسیوں کی قدر میں کمی ہوئی جبکہ اس دوران پاکستانی روپے کی قدر مستحکم رہی لیکن اس کے باوجود چین اور بھارت کی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 26ستمبر 2013کو اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرکر 110.50 روپے کی نچلی ترین سطح تک پہنچ گئی جس نے کاروباری طبقے میں بے چینی پیدا کردی اور لوگ بڑی تعداد میں ڈالر خریدنے لگے۔ انٹربینک میں بھی ڈالر 110 روپے تک جاپہنچا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے فوری مداخلت کرکے 50سے 60ملین ڈالر اوپن مارکیٹ میں داخل کئے جس سے ڈالر کی طلب میں کمی ہوئی اور انٹربینک میں ڈالر 106.95روپے تک آگیا۔ آئی ایم ایف نے اپنے معاہدے میں اسٹیٹ بینک کو اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا پابند کیا ہے اور اس طرح پاکستان کی چھوٹی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ رہی ہے جس کا دبائو روپے کی قدر پر پڑرہا ہے۔
ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغواء برائے تاوان جیسے عوامل کے باعث پاکستانیوں نے اپنی دولت بیرون ملک منتقل کرکے مختلف کاروبار میں لگائے۔ میرے چارٹرڈ اکائونٹینٹ دوست شبر زیدی کے مطابق ان اثاثوں میں سے تقریباً 115 ارب ڈالر بزنس مینوں کے ہیں جبکہ 35ارب ڈالر بدعنوانی اور کرپشن سے حاصل کئے گئے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان اثاثوں کے مالکان اُنہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز(FPCCI) اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ایک نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے مشاورت کررہی ہے جس کے تحت ٹیکس جرمانہ ادا کرکے اربوں ڈالر کو قانونی طور پر ملک لایا جاسکے گا جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور روپے کی قدر مستحکم رہے گی۔
پاکستان میں درآمدی تیل کے بلوں کی ادائیگی پہلے اسٹیٹ بینک کرتا تھا لیکن اب آئی ایم ایف کی ہدایت پر یہ ادائیگی کمرشل بینکوں کے ذریعے کی جارہی ہے۔ یہ کمرشل بینک تیل کے بلوں کی ادائیگی کیلئے جب مارکیٹ میں ڈالر لینے جاتے ہیں تو مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ حج سیزن میں عازمین حج تقریباً 750 ملین ڈالر مارکیٹ سے خرید کر اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں جس سے بھی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ اور روپے کو دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو چاہئے کہ وہ روپے کو فری فلوٹ کرنے کے بجائے ڈالر کی طلب اور رسد میں توازن برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ پر نظر رکھے تاکہ سٹہ باز مارکیٹ میں ڈالر کی قدر غیر معمولی نہ بڑھا سکیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور روپے کی قدر کم ہونے سے ملک میں مہنگائی کا سیلاب آسکتا ہے جو غربت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ معیشت دانوں کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی، ایکسپورٹ، ترسیلات زر، بیرونی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پاکستانی روپیہ دبائو کا شکار رہے گا۔

.
تازہ ترین