• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی سڑکوں پر کشمیر کی لڑکیاں سراپا احتجاج ہیں اور یہ ایک حیران کن اور بہت بڑی خبر ہے۔
اپنی چمکدار سفید وردیوں اور ترتیب سے لپٹے دوپٹوں یا کالے حجابوں میں ملبوس کشمیری طالبات بھارت کی قابض فوج کو مسلسل چیلنج کرتی نظر آرہی ہے۔ شجاعت کے اس بے پناہ مظاہرےنے کشمیر اورکشمیر کے باہر آزادی پسند لوگوں کو حیران کردیا ہے۔
پچھلے کئی ہفتوں سے دارالحکومت سری نگر اور وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے لے کر سرحدی ضلع کپوارہ اور شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے لے کر جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ تک ہزاروں طلبہ اپنے اسکول کے بستے اٹھائے، آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر پیش قدمی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کچھ تصاویر اور ویڈیوز میں طالبات بھارتی فوج پر یا تو پتھراؤ کرتی نظر آرہی ہیں یا ان کی بکتر بند گاڑیوں پر جوکہ خوف اور تسلط کی علامتیں ہیں، پر لاتیں مارتی نظر آرہی ہیں۔ اچانک یوں لگ رہا ہے کہ کشمیری طالبات کے وجود میں ایک غیر مرئی قوت در آئی ہے جو ان کو ظلم اور جبر کے بے پناہ تسلط سے آزاد کرکے سڑکوں پر لے آئی ہے جس سے کئی دہائیوں سے جاری موجودہ جدوجہد کو ایک نئی جہت ملی ہے۔
گزشتہ مہینے کے اواخر میں کالے حجاب اور سفید جوتوں میں ملبوس ایک طالبہ کی تصویر سوشل میڈیا کے توسط سے وائرل ہوگئی جو ایک بھارتی بکتر بند گاڑی پر لات مار رہی تھی۔ بعد میں ایک اخباری انٹرویو میں اس طالبہ جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، بتایا:’’مجھے پتا تھا کہ میری لات سے کچھ نہیں بدلے گا مگر ایسا کرتے ہوئے مجھے پہلی بار ایک قسم کی تسلی محسوس ہوئی‘‘۔ ایک اور طالبہ معروشہ مظفر جو کہ ان مظاہروں کا حصّہ رہی ہیں، نے سڑکوں پر آکر اپنے غصّے کا اظہار کرنے کا جواز یوں پیش کیا:’’ہم نے اپنے بھائی بہنوں اور ماں باپ کا خون ذبح ہونے والے بھیڑوں کی طرح بہتے دیکھا ہے۔ اس صورتحال میں آخر کب تک خاموش رہا جاسکتا ہے‘‘۔
طلبہ کے جاری یہ مظاہرے12 اپریل کو اس وقت شروع ہوئےجب بھارتی فوجوں کا ایک دستہ اپنی بکتر بند گاڑیاں لے کر گورنمنٹ کالج پلوامہ میں گھس گیا۔ کشمیر کے تعلیمی اداروں میں بھارتی فوج کی مداخلت کوئی نیا عمل نہیں ہے بلکہ پچھلی تین دہائیوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں نے سینکڑوں اسکولوں اور کالجوں پر قبضہ کرکے ان کو فوجی کیمپوں میں بدل دیا ہے مگر چونکہ موجودہ بغاوت کے دوران کشمیریوں کے دلوں سے قابض افواج کا خوف زائل ہوتا جا رہا ہے اس وجہ سے کالج میں موجود طلبہ نے جلدی سے اپنے آپ کو منظم کرکے فوج کو کالج کے احاطے سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔ طلبہ کے ہاتھوں اس بے عزتی کے تین روز بعد فوج اور نیم فوجی دستوں کی ایک بڑی تعداد نے کالج پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے طلبہ اور طالبات پر سن کر دینے والے کیمیائی گولے اور آنسو گیس کے سینکڑوں شیلز پھینکے اور سینکڑوں طلبا اور طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا جس سے ایک سو کے قریب طلبا اور طالبات زخمی ہوگئے۔
اس واقعہ کے بعد لگ بھگ ایک سال سے جاری انتفاضہ میں ایک نئی جان پڑگئی ہے کیونکہ اب کشمیر کے طول وعرض میں طا لبات کےمظاہروں کی ایک نئی روایت سامنے آئی جو ہر نئے گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اوّل اوّل تو یہ مظاہرے مکمل طور پرامن تھے لیکن جب بھارتی فوجی دستوں کی طرف سے ان پر حملے کئے گئے تب خواتین کی جانب سے بھی بھرپور مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ سری نگر کے ایک کالج میں زیرتعلیم کامرس کی طالبہ افشاانجم نے اس صورتحال کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچا’’ہم سڑکوں پر اس لئے آئے تھے کہ ہم پلوامہ کالج میں ہونے والے واقعات کے خلاف احتجاج کریں۔ مگر قابض فوجیوں نے ہمیں گالیاں دیں اور ایک لڑکی کو تھپڑ مارا۔ اس کے بعد ہمارے ہاتھوں میں جو بھی آیا ہم نے ان پر دے مارا‘‘۔
نواکدل سری نگر کی ایک اور طالبہ اقرا صدیق جو کہ بھارتی فوجی دستوں کے حملے میں شدید زخمی ہوگئی تھی نے اسپتال کے بستر سے اپنی روداد کچھ یوں بیان کی ’’ہم بالکل پرامن طریقے سے احتجاج کررہے تھے۔ جب ہم عیدگاہ چوک پہنچ گئے تو اچانک فوجی دستوں کے ایک بنکر سے مجھ پر ایک بھاری پتھر پھینکا گیا جو میرے سر پر لگا‘‘۔ اقرا نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’’جوں ہی میں ٹھیک ہوجاؤں گی میں ہر مظاہرے میں شامل ہونگی۔ اب تو مجھے شمولیت کا ایک اور جواز مل گیا ہے‘‘۔
اپنے بے پناہ جبر اور طاقت کےبےجااستعمال کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بھارتی فورسز نے درجنوں اسکولوں اور کالجوں پر دھاوا بول دیاجس سے کئی سو طلبا اور طالبات زخمی ہوگئے اور سینکڑوں غیرقانونی حراست میں لئے گئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود وہ کشمیری طالبات کے جذبۂ حریت کو زیر کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس پر حیرانگی اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر میں تعینات ایک سینئر فوجی افسر نے بھارتی جریدے ’’دی ہندو‘‘ کو بتایا’’پاوا شیلز، اسٹن گرنیڈز اور آنسو گیس کے گولوں کے مسلسل استعمال کے باوجود ان طالبات پرقابو نہیں پایاجاسکا۔ ہماری باربار کی شیلنگ کے باوجود یہ لڑکیاں آٹھ بار مظاہرہ کرتی ہوئی باہر نکلیں‘‘۔ طلبہ کے یہ مظاہرے دوسرے مہینے میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان مسلسل مظاہروں کی وجہ سے بھارت کی بے پناہ قہرسامانیاں کند ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کشمیری طالبات کے ہاتھوں میں پتھر بھارتی فوج کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے جس سے موجودہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی جوکہ خود ایک خاتون ہیں کی حکومت خطرے میں پڑگئی ہے کیونکہ بھارتی حکومت طاقت کے بےپناہ استعمال کے باوجود حالات کو قابو کرنے میں ان کی ناکامی پر ازحد نالاں دکھائی دیتی ہے۔
پسِ نوشت:
مظاہروں کو قابو کرنے میں مسلسل ناکامی کے بعد آخرش حکومتی نزلہ سوشل میڈیا پر گرگیا اور اس پر ایک مہینے کیلئے پابندی لگادی گئی۔ اس کے علاوہ حکومت انٹرنیٹ پر مکمل پابندی کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔
مزید برآں گزشتہ ہفتے کے اوائل میں لگ بھگ تیس کے قریب ٹی وی چینلز پر پابندی لگادی گئی جن میں اکثر پاکستانی چینلز ہیں۔ ان میں ایک اسپورٹس اور ایک میوزک چینل کے علاوہ دو پاکستانی پکوانوں کے چینل بھی شامل ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو مزیدار پاکستانی کھانوں سے متعارف کرارہے تھے۔ اس پابندی کو واجب قرار دیتے ہوئے سرکاری نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا کہ ان چینلز کے ذریعے ’’کشمیریوں کو تشدد پر آمادہ یا اکسایا جاسکتا ہےجس سے وادی کشمیر میں نقض امن کا احتمال ہے‘‘

.
تازہ ترین