• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن کے کچھ کھیل تماشے یاد آرہے ہیں۔ جادوگر ایک ڈبے میں کچھ پھٹے ہوئے کاغذ ڈالتا اور جیتا جاگتا کبوتر اڑ کر باہر نکل آتا یا پھر کالے رومال کو ہاتھ میں گھماتا اور لال یا سبز رنگ کا رومال بن جاتا، معصوم لوگ نہ صرف داد دیتے بلکہ ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق پیسے بھی دیتا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہیں۔ لوگ آج بھی اُسی طرح معصوم اور بیوقوف بننے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن مداری اور مداریوں کے میدان تبدیل ہو گئے ہیں پہلے تماشا شہر کے کسی ایک کونے میں ہوتا اور چند لوگ اس سے محضوظ ہوتے مگر آج یہ تماشے کروڑوں لوگ گھر بیٹھے دیکھتے ہیں، مداری اور جادوگر بھی زیادہ ہوگئے ہیں، اب نہ کوئی وقت مقرر ہے نہ جگہ بلکہ ہر وقت ٹیلی وژن کی اسکرین کے ذریعے کروڑوں لوگوں کے اعصاب پر یہ تماشے سوار ہو چکے ہیں۔ آج کل اُن میں سے ایک تماشا نیوز لیکس کا ہے جو سات مہینے پہلے شروع ہوا۔ 6اکتوبر2016ءکو سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان ایک اجلاس میں قومی سلامتی کے امور پر ہونیوالی بات چیت کوجس طرح انگریزی اخبار میں شائع کیا گیا اور اس پر ملک دشمن طاقتوں کو قومی سلامتی کے ادارے کیخلاف پروپیگنڈہ کا موقع ملا اور خبر چھپنے کے تماشے کے بعد ردعمل سامنے آیا کہ نیشنل سیکورٹی کو توڑا گیا ہے۔ اتنا سخت ردعمل کہ پہلے وزیر اطلاعات کو ان کے عہدے سے الگ کیا گیا پھر اس کی تحقیقات کیلئے ایک جسٹس کی نگرانی میں انکوائری کمیشن بنایا تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ کیا واقعتاً قومی سلامتی کو توڑا گیا ہے۔ اس تماشے کے مختلف پہلوئوں پر مزید تماشے ہوتے رہے۔ یہ سارے تماشے بڑے تماشے کی مذمت کے سلسلے میں تھے اور پھر انکوائری رپورٹ کے مندرجات کے حوالے سے مختلف تماشے ہوتے رہے اور ٹی وی چینلز پر اپنی اپنی مرضی کے نتائج نکال کر مزید تماشے بھی کھڑے کئے جاتے رہے، آخرکار 29اپریل 2017کو وزیراعظم کے آفس سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا، نیوز لیکس کی پاداش میں مشیرِ خارجہ کو اُن کے عہدے سے الگ کر دیا گیا، پی آئی او کیلئے ڈیپارٹمنٹل انکوائری کے بعد کارروائی تجویز کی گئی اور نیوز شائع کرنے والے رپورٹر اور ایڈیٹر کو اے پی این ایس کے سپرد کر دیا گیا کہ وہ خود کارروائی کرے، اس نوٹیفکیشن کے فوراً بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے ٹوئٹ کے ذریعے پریس ریلز جاری کی گئی جس میں اس نوٹیفکیشن کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ مکمل انکوائری رپورٹ نہیں۔
مخالفین اور حزب اختلاف نے بھی نوٹیفکیشن کے بعد اپنے تماشے لگائے اور مکمل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اصل نوٹیفکیشن تو وزارت داخلہ جاری کر سکتی ہے اس طرح دو بہت ذمہ دار اداروں کے درمیان تنائو کا تماشا بھی ہوا۔ جس پر وزیراعظم اور اُن کی کابینہ کا یہ موقف سامنے آیا کہ سویلین بالادستی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، نیوز لیکس کے تمام نکات پر عمل ہو گیا، نئے نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں، وزیراعظم آفس کا آرڈر سمجھے بغیر جلد بازی میں ٹویٹ کیا گیا جو ناقابل قبول اور آئین کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اُسی روز وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کر کے بتایا کہ فوج اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں، فوج آئینی و جمہوری عمل کی حامی ہے، تحفظات دُور ہو گئے، ٹویٹ واپس لیا جاتا ہے کیونکہ وزارت داخلہ کے نئے نوٹیفکیشن سے دونوں اداروں کے درمیان غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔
ایک لحاظ سے نیوز لیکس کا معاملہ بظاہر بڑے احسن طریقے سے طے ہوگیا لیکن جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اب مزید نئے تماشے لگیں گے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل سیکورٹی کو بریچ کیا گیا، اگر نہیں کیا گیا تو پھر اس قدر شدید ردعمل کیوں سامنے آیا، یہ کیوں کہا گیا کہ نیشنل سیکورٹی بریچ ہوئی؟ اگر نہیں کیا گیا تو انکوائری کمیشن کیوں بنایا گیا؟ اگر انکوائری کمیشن بنایا تو اس نے کیا تحقیقات کیں؟ اُن تحقیقات کی تفصیلات کیوں سامنے نہیں لائی گئیں؟ کیونکہ یہ دو اداروں کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ تھا اور پوری قوم اس کی وجہ سے شدید ذہنی تنائو کا شکار تھی۔ کیا اب تحقیقات کی تفصیلات سامنے لانا نیشنل سیکورٹی بریچ ہے؟ نیوز لیکس سامنے آنے کے بعد تو اس بات کی تحقیقات ہونی تھیں کہ یہ قومی راز کس طرح باہر آیا، کس کے کہنے پر خبر چھپی؟
مگر جو دونوں نوٹیفکیشن اب تک سامنے آئےہیں اُن میں تو کہیں اس چیز کا تعین نہیں ہوا، اگر تو دو تین افراد سے اُن کی اسائنمنٹ واپس لی گئی ہے تو اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں کہ وہ نیوز لیکس کے ذمہ دار ہیں وہ تو محض قربانی کے بکرے بنے ہیں، اگر واقعتاً یہ ذمہ دار ہیں تو یہ چیز تو پہلے دن سے طے شدہ تھی پھر پوری قوم کو سات ماہ تک کیوں عذاب میں مبتلا رکھا گیا، آخر ایسے تماشے کب بند ہوں گے، آخر کب ہم میچور ہوں گے؟ اس صورتحال سے عوام کی جان کب چھوٹے گی۔ ہر وقت ٹی وی اسکرین پر آکر عوام کو ایک نیا تماشا دکھا کر عذاب میں مبتلا کرنے والی ’’قومی خدمت‘‘ کا خاتمہ کب ہو گا؟ کیونکہ نیوز لیکس رپورٹ اور پھر اس کے بعد جاری ہونے والے بیان پر ہمارے دشمن نے سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق دو ایسے فیس بک اکائونٹ بھی سامنے آئیں ہیں جو چنائی اور دہلی سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔ کیا قانون اور اخلاقیات کے سارے درس عوام کیلئے ہیں۔ ان تماشوں کو دیکھتے ہوئے عوام تو صرف یہ سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ آپ سب فرشتے ہیں، آپ میں کوئی برائی نہیں، کرپشن اور منی لانڈرنگ تو آپ کے تصور میں بھی نہیں، سب کے الزامات عوام اپنے سر لیتے ہیں۔ بس اس کے بدلے عوام کیساتھ مزید کھلواڑ بند کر یں!

.
تازہ ترین