• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس تیزی کے ساتھ منشیات کی وبا پھیلتی جارہی ہے اس سے خطرہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں نشے کے عادی افراد میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر نوجوان نسل ہی نشے کا شکار ہورہی ہے۔ جو مستقبل کے حوالے سے نہایت ہی خطرناک بات ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے سالانہ 6 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں جاتے ہیں، جبکہ صرف پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہر سال ایک لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ دنیا بھر میں غیرفعال تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے سبب ایک لاکھ 65 ہزار بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے 40فیصد بچوں، 33فیصد مردوں اور 35فیصد خواتین کو صحت کے گوناگوں خطرات لاحق ہیں۔ دھویں کی زد میں آکر امراض قلب میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد 3 لاکھ 79ہزار تک پہنچ گئی۔ ایک لاکھ 65 ہزار افراد سانس کی نالی کے انفیکشن، 36 ہزار دمے کے مرض اور 21ہزار 400پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس وقت دنیا میں 20کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ سب سے زیادہ بھنگ اور اس سے تیار ہونیوالی منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والی منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکہ میں کیا جاتا ہے جہاں 15 سے 64 سال کے 6.2فیصد افراد اس کا نشہ کرتے ہیں۔ تعداد کے حوالے سے سب سے زیادہ ایشیائی باشندے 5 کروڑ 21لاکھ بھنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ کوکین کا سب سے زیادہ استعمال آبادی اور تعداد دونوں حوالوں سے براعظم امریکہ میں کیا جاتا ہے۔ جہاں 84 لاکھ 40 ہزار افراد کو کین کا نشہ کرتے ہیں۔ افیون کا استعمال آبادی کے تناسب سے 0.4 براعظم امریکہ اور تعداد کے حوالے سے 85 لاکھ 30 ہزار ایشیائی کرتے ہیں۔ ہیروئن کے استعمال میں بھی تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے جہاں 54لاکھ سے زائد افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ 15 سے 64 سال کے افراد کی آبادی کے حوالے سے سب سے زیادہ 0.6 فیصد یورپی افراد ہیروئن کے عادی ہیں۔ جنوبی کوریا کے شعبہ صحت کی رپورٹ کے مطابق کوریا کی معیشت کو صرف شراب نوشی سے سالانہ 22 ارب ڈالر کے نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ جن میں شراب نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75فیصد لوگ ذہنی دبائو اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے لئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا خصوصاً یورپ کی بلیک مارکیٹس پر ایسے افراد کا قبضہ ہے جن کا اثرورسوخ حکومتی سطح تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینا میں انسدادِ منشیات کی فورسز ہونے کے باوجود یہ زہریلی وبا دن بدن پھیلتی چلی جارہی ہے۔ افغانستان میں دونوں منشیات کا تناسب بالترتیب 1.4 اور 3.6 فیصد ہے۔ دنیا بھر کی منشیات کی تقریباً 80 فیصد پیداوار افغانستان سے حاصل کی جاتی ہے جہاں طالبان کے سقوط کے بعد افیون کی فصل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ انسدادِ منشیات کے کئی اداروں کے سربراہ یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ طالبان حکومت کے دوران دنیا بھر میں منشیات کی پیداوار میں خاصی کمی آگئی تھی اور یہ یقین ہوچلا تھا کہ چند ہی سالوں کے اقدامات سے منشیات کا تقریباً خاتمہ ہوجائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 1980 میں افغانستان میں پوری دنیا کی پیداوار کی 30 فیصد افیون کاشت ہوتی تھی اور اب پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ صوبہ ہلمند میں 70 ہزار ہیکڑ رقبے پر پوست کاشت ہورہی ہے۔ تھنک ٹینک نے امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو فورسز کو تجویز دی ہے کہ وہ فضائی اسپرے کرکے افغانستان میں پوست کو تلف کردیں۔ وطنِ عزیز میں بھی منشیات کا یہ گھنائونا کاروبار دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہر سال منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافے اور نت نئے نشوں کے متعارف ہونے کی افسوس ناک رپورٹس آتی رہتی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہیروئن کے نشہ کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی کے مسلسل استعمال کے بعد 48 فیصد نے شراب اور 24فیصد نے انجکشن کے ذریعے نشہ کیا،10 فیصد نے نشے کیلئے دیگر ذرائع استعمال کئے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ 43فیصد کوئی نہ کوئی نشہ کرتے تھے۔ 76فیصد وہ لوگ ہیں جن کے دوستوں میں نشہ کرنے والے ساتھی موجود ہیں۔ دنیا بھر میں 60 سے 90 فیصد افراد زہریلی اشیا کھاکر، پھندا لے کر اور پانی میں کود کر خودکشی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشیاں لٹویا میں ہوتی ہیں۔ وہاں ہر سال ایک لاکھ میں سے 42 افراد خودکشی کرتے ہیں۔ لٹویا کے بعد سب سے زیادہ خودکشیاں روس، بیلاروس، اسٹونیا اور ہنگری میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں پانچ ہزار سے زائد افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک سال میں تین ہزار سے زائد افراد اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ خودکشی کے اسباب میں نشہ سرفہرست شامل ہے۔ دوسری طرف سگریٹ نوشی ایک ایسی لعنت ہے کہ اس سے روزانہ 56 ملین روپے ضائع ہورہے ہیں۔ ہر سال اس کی وجہ سے ایک لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً 50 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال بدستور جاری رہی تو 2020تک یہ تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ پاکستان میں اگر اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت تقریبا 3 کروڑ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ایک لاکھ افراد ہر سال تمباکو نوشی سے متاثرہ بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل دنیا میں بہت سی چیزیں فیشن بن چکی ہیں جو دراصل فطرت اور اس کے تقاضوں سے جنگ کے مترادف ہیں۔ باقی دنیا کو چھوڑیں! پاکستان بھر کے بڑے شہروں کی حالت یہ ہے کہ نوجوان اہم مقامات پر کھلے عام مختلف نشے کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی اور نجی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیںکئے جارہے۔ اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتاہے جو اس گھنائونے اور جان لیوا کاروبار میں ملوث ہیں، حالانکہ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے مجرم کی سزا موت ہے لیکن آج تک کسی فرد کو منشیات کے مقدمے میں سزا نہیں دی جاسکی۔ منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثرورسوخ رکھنے والے افراد ہوتے ہیں جو اپنے ایجنٹوں کی رہائی کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ اس تناظر میں وطن اور قوم سے محبت رکھنے والے افراد پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسدادِ منشیات کیلئے ہر سطح پر کمیٹیاں بنائیں اور ایسے افراد کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کو راہِ راست پر لانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ نشے کے بارے میں جسمانی صحت ،اخلاقی اور اسلامی نقطۂ نظر سے عوامی آگہی مہم شروع کی جائے ورنہ قوم کے نونہال منشیات کے عفریت کا شکار ہوتے رہیں گے۔

.
تازہ ترین