• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ سامان چرایا کرتے تھے، ڈاکے ڈالتے تھے۔ خیر یہ کام آج بھی ہوتے ہیں، موبائل فون چرائے جاتے ہیں، لیپ ٹاپ چھین لئے جاتے ہیں لیکن اب تو ڈاکٹرز گردے چراتے ہیں، وہ دور آجائے گا جب لوگوں کے جگر چرائے جائیں گے کیونکہ گردے، جگر اور دل تینوں بڑے قیمتی ہیں، ابھی دنیا میں دل کی پیوند کاری اتنی عام نہیں ہوئی ورنہ ہمارے ڈاکٹرز کب سے لوگوں کے دل چرا رہے ہوتے۔
آپ پچھلے دس برسوں کے اخبارات اٹھاکر دیکھیں آپ کو بے شمار خبریں ملیں گی فلاں پرائیویٹ اسپتال میں اپنڈکس کے بہانے یا کسی اور بیماری کے علاج کے بہانےڈاکٹر نے گردے نکال لئے۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ یہ گردوں کا کاروبار ایک عرصے سےجاری ہےگردے کھانے کا سلسلہ تو لکشمی چوک میں ایک عرصہ سے جاری ہے، البتہ گردے چرانے کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے وہ بھی ڈاکٹر مزید کام کررہے ہیں مگر ہماری حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جس ملک میں لوگ غربت، بیماری اور حالات سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہوں، لوگ غربت کے ہاتھوں اپنے گردے فروخت کر رہے ہوں کیاوہاں کے حکمرانوں کو باہر کے دورے، قیمتی کپڑے، نفیس کھانے اور مہنگی گاڑیوں میں گھومنا زیب دیتا ہے؟۔ کیا جواب دیں گے روز قیامت خالق کائنات کے حضور۔ اس نبیؐ کی امت جنہوں نے سادگی کی مثالیں قائم کیں، وہ حاکم حضرت عمرؓ جنہوں نے حکمرانی کے انداز سکھائے، کیا اس قوم کے حکمرانوں کو یہ زیب دیتا ہے؟ رمضان المبارک کے مقدس ایام مکہ اور مدینہ میں بسر کرتے ہیںپھر بھی یہ کیسے پتھردل لوگ ہیں کہ غربت میں ڈوبی ہوئی قوم کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ بدعنوانی کرتے اور جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ آج ہم جس دل خراش واقعہ کا تذکرہ کر رہے ہیں اور وہ پچھلے کئی روز سے پورے ملک کے میڈیا میں زیر بحث ہےواقعہ کچھ یوں ہے کہ لاہور کے دو ڈاکٹرز جن میں ایک کا تعلق وائی ڈی اے سے اور دوسرے کا لاہور جنرل اسپتال سے ہے وہ وائی ڈی اے جو آئے دن ہڑتالیں کرتی ہے مریضوں کو مزید دکھی کرتی رہی ہے۔ وہ حلف جس میں واضح لکھا ہے کہ ڈاکٹر ہرحال میں اپنے مریض کا علاج کرے گا اورکبھی کسی مریض کے علاج سے انکار نہیں کرے گا۔ مگر وائی ڈی اے نے پچھلے دس برس میں اس حلف ناے کی وہ دھجیاں اڑائیں کہ میڈیکل کی تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ کس طرح ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی کو بند کئے رکھا، کس طرح فیصل آباد(لائل پور) کی ایک مامتا اپنی بیٹی کو گود میں اٹھائے پھرتی رہی اور ان نوجوان ڈاکٹروں نے اس کا علاج نہ کیا اور وہ مر گئی۔ ایک نہیں سو سے زائد افراد کو مختلف سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی میں مار دیا۔ کبھی کسی نے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی بھی بند کی ہے۔ یہ کیسا احتجاج ہے کہ مریضوں کاعلاج ہی نہیںکیاجاتا۔ اب جو افسوسناک واقعہ لاہور میں ہوا اس میں بھی وائی ڈے اے کے سیکرٹری ڈاکٹر اور جنرل اسپتال کے سرجن کو دو افراد کے گردہ نکالتےہوئے رنگے ہاتھوں آئی بی اور ایف آئی اے کی ٹیموں نے پکڑ لیا۔ یہ میڈیکل تاریخ کا بڑا دلچسپ اور افسوس ناک واقعہ ہے کہ پیوند کاری کے دوران ایک گردہ بھی برآمد کرلیا۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ایک ایمان دار افسر کے ساتھ ساتھ خود ڈاکٹر بھی ہیں۔ اس چھاپے کے دوران اگر وہ کسی ماہر ڈاکٹرکو ساتھ رکھتے یا پھر ان گردہ چور ڈاکٹروں کو آپریشن مکمل کرنے دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا، جو گردہ برآمد کیا گیا وہ ضائع ہوگیا جس نے عطیہ دیا یعنی جس سے خریدا نہ اس کے کام کا رہا اور نہ اس مریض کو لگ سکا جس نے 70/60لاکھ روپے دیئے تھے۔ یہ ٹھیک ہے آپ نے ان مریضوں کو میو اسپتال یا دیگر اسپتالوں میں منتقل کردیا مگر آپ کے اس طرح چھاپہ مارنے سے مریض اور گردہ دینے والے دونوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالاگیا۔ ہم گردہ چرانے والے ان ڈاکٹروں کے حق میں بالکل نہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس جس کی صدارت چیئرمین سجاد غوری کر رہے تھے اس میں سفارش کی گئی ہے کہ گردوں کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد اور جعلی ڈاکٹروں کوپھانسی کی سزا دی جائے ۔
ارے بھائی مریضوں کو گردے لگانا کوئی کاروبار ہے ؟ آپ کہتے ہیں کہ گردوں کا قانونی کاروبار کرنے والے کو کچھ نہیں کہا جا ئے گا اگر سگا بھائی ،بہن ہی گردے کی قیمت وصول کرے گا تو آپ کیا کریں گے؟انسانی اعضا لگانے کو قانونی اور غیر قانونی کاروبار میں تقسیم نہ کریں یہ کوئی کاروبار نہیں ۔
اب سننے میں آ رہا ہے کہ وائی ڈی اے والے تحقیقات پر اثرانداز ہو رہے ہیں گلف میں یہ کاروبار عروج پر ہے جہاں پاکستانی گردوں کے دلال یہ کام کر رہے ہیں اگر ایف آئی اے، آئی بی اور حساس ادارے مل کر اس انتہائی سنجیدہ مسئلے پر پوری دل جمی اور بغیر دبائو کے کام کریں تو کئی انکشافات ہوں گے ۔یہ نیٹ ورک ایک مدت سے کام کر رہا ہے ۔
عزیز قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ لاہور کا ایک پرائیویٹ اسپتال غیر ملکی خصوصاً عرب ممالک کے لوگوں کے گردوں کے آپریشن کے لئے بڑا مشہور تھا اور وہاں سے کئی غیر ملکی اور پاکستانی گردہ فروش پکڑے گئے تھے اور وہ اسپتال کچھ عرصہ بند بھی رہاتھا۔ اب پھر عرب ممالک کے لوگوں نے پاکستان کا رخ کرلیا ہے۔ (جاری ہے)

.
تازہ ترین