• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’فائنل اتھارٹی وزیراعظم ہیں‘‘ کے الفاظ نے ملک میں سیاسی نظام اور جمہوریت کی مسلسل ہچکولے کھاتی اور ڈانواںڈول کشتی کو بےیقینی کے بھنور سے فی الوقت نکال دیاہے، تاہم شارٹ کٹ سے اقتدار میں آنے کی خوش فہمی و پریشانی میں مبتلا بعض سیاسی رہنما اور ان کے ساتھی فوج کے جمہوری طرز عمل کےبعد آپے سے باہر ہوچکے ہیں، سوشل میڈیا پر ’’بہیمانہ‘‘ رویوں اور بدکلامی نے سیاست کی پیالی میں طوفان برپا کر رکھا ہے، ان حرکتوں کےپس پردہ عوامل اور اصل حقائق واضح لیکن ناکام لگتے ہیں، سچ یہی ہےکہ 2014 میں ’’تاریخی‘‘ دھرنے کے بعد پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے شور میں ایک مرتبہ پھر ملاقات کا بہانہ نکلا تو ’’نوجوان لیڈر‘‘ نے بذات خود ملاقات کی ’’کامیابی‘‘ کا احوال ان الفاظ میں بتایا ’’قوم کیلئے خوشخبری ہے کہ موجودہ آرمی چیف جمہوریت پسند اور جمہوری عمل کے حامی ہیں‘‘۔ اب اس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے اقتدار کےحصول اور ملک میں محض الزامات لگا کر انقلاب لانے کا خواب دیکھنے والوں کو جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینا چاہئے تھا، اداروں اور ان کےسربراہوں کی توہین کرنے اور نامناسب زبان استعمال کرنے کی روایت ترک اور اپنے لیڈر کے الفاظ کی توقیر کا خیال اور ان کے ’’جمہوری‘‘ کردار کا مان رکھنا چاہئے تھا لیکن جب تک ملک میں سیاسی دھمال اور بھونچال کے ذریعے ہیجان برپا نہ کیا جائے، عوام کی توجہ اور تبدیلی کےنام پر نیا سیاسی اسٹیج سجانا ممکن کیسے ہو …!
کسی نے موجودہ سول ملٹری تعلقات میں نئے موڑ کا سنجیدہ سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ حکومت پاناما لیکس کے بعد ڈان لیکس کیس میں بھی ’’بچنۓ‘‘ میں کامیاب ہوگئی؟ تو میرا سادہ سا جواب تھا، حکمرانوں کے پاس کچھ ہوتا تو کھوتے، ان کا مقصد اقتدار پانا اور پانچ سال پورے کرنا تھا سو ہر سال ایک نئے چیلنج نے ان کے اقتدار کو مضبوط اور عوام کو ’’نہ چھوڑنے‘‘ کے عزم کو مضبوط کیا ہے، دو تین وزرا اور سرکاری ملازم کو ہٹا کر اقتدار بچانا کچھ کھونا نہیں پانا ہی پانا ہے، ایک قریبی دوست نے توجہ دلائی کہ آرمی چیف کے انتخاب کے موقع پر باجوہ صاحب کےچیف بننے کے حق میں سب سے بڑی اور اہم بات جنرل صاحب کا جمہوریت پسند ہونا، آئین اور آئینی اداروں کی عزت و تکریم پر یقین رکھنے کی منفرد سوچ اور اعتقاد تھا، یہی بات میاں صاحب کے اطمینان کی وجہ اور سکون قلب بنی،2013 کےانتخاب میں کامیابی کےبعد ماضی کی طرح میاں صاحب نے روایتی انداز میں ’’لامحدود اختیارات‘‘ کی جنگ چھیڑ دی، جس میں وہ بعض ’’ناگزیر وجوہات‘‘ کی بنا پر مکمل کامیاب نہیں ہوسکے لیکن انہیں اپنے سے کہیں زیادہ یقین اس بات کا تھا اور ہے کہ اب کی بار انہیں اقتدار سے نہیں ہٹایا جاسکتا اور نہ ہی مارشل لا لگا سکتا ہے…بادی النظر میں ان کا اندازہ یقینی طور پرکسی حد تک درست بھی تھا کیونکہ عالمی حالات و تقاضے، ملک میں قرضوں سے بدحال معاشی حالات، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، امن و امان سمیت تینوں سرحدوں پر سلامتی کو درپیش خطرات، ملک میں آمریت کے متحمل نہیں ہوسکتے، دوسری طرف روایتی طرز سیاست کے باعث مشکلات میں گھرنے کے بعد چند قریبی وفادار ساتھیوں کی قربانی بھی حکمرانوں کے لئے تنکے کا سہارا بن گئی، لیکن عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاسی و جمہوری پسندوں کا کیا یہی عوامی اور حقیقت پسندانہ طرزِحکمرانی ہے؟ کیا اقتدار میں بیٹھ کر ہرمرتبہ کسی طوفان کے ٹل جانے کو اپنی اچھی تقدیر و تدبیر کا نتیجہ اور پھر جمہوریت کی فتح قرار دینا کتنی بڑی دانشمندی ہے؟
نیوز لیکس اور فوجی ترجمان کےمسترد کرنے کے بارے میں ٹوئٹ کےجواب بعض ’’مخلص اور قریبی‘‘ ساتھیوں کا سویلین بالادستی کےسوال اٹھانے کا وزیراعظم کو دیا جانے والا مشورہ صورت حال یکسر بدل بھی سکتا تھا تاہم وزیراعظم کے بطور چیف ایگزیکٹو مایوسی کے باوجود پرعزم تحمل نے معاملات کو کنٹرول سے باہر نہیں ہونے دیا جبکہ جنرل باجوہ نے بھی ایک پروفیشنل سولجر کی حیثیت سے آئین سے اٹھائے گئے وفاداری کے حلف کی پاسداری کو ترجیح بنایا اور ملک کو کئی ماہ سے جاری گومگو کی کیفیت سے باہر نکالنے میں اپنا غیرمعمولی جمہوری کردار بھی ادا کیا۔ جنرل باجوہ کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ وہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے وزیرستان سے لے کر ہر گیریژن اور فیلڈ ایریا کا دورہ کرکے جوانوں اور افسروں کا پیشہ ورانہ امور میں حوصلہ بڑھا رہےہیں اور موجودہ حالات واقعات پرتلخ وشیریں سوالات کا سامنا اور (موثر و منطقی) جواب بھی دے رہے ہیں، ایک خطاب اور گفتگو میں تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ تحقیقاتی کمیشن نے کارروائی کی اور ذمہ داروں کےخلاف کارروائی کردی گئی، بقول ایک افسر کے جنرل صاحب کہتے ہیں کہ وزیراعظم کےاحکامات پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کو واپس لئے جانے کا فیصلہ پاپولر نہیں لیکن مشکل ضرور تھا لیکن بہتر فیصلے کے اثرات کا اندازہ آنے والے وقت میں ہوگا۔ ایک اوربڑی بات جو جنرل باجوہ نے کہی ہے کہ اس ملک میں سب کو متحد رہنا ہے، ہم سب کو آئین اور رول آف لا کی پاسداری کرنی ہے اور
"Martial Law is not at the Solution"
مارشل لا کا کوئی حل نہیں ہے۔
ادھر نیوز لیکس کا معاملہ ختم ہوچکا لیکن سیاسی، صحافتی و عوامی سطح پر پس پردہ عوامل اور وجوہات کے بارے میں بھی کئی کہانیاں اور سازشی تھیوریاں تراشی جارہی ہیں۔ ان میں کیا حقیقت ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پاکستان کی سول ملٹری تعلقات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے موجودہ سپہ سالار کی جانب سے افواج پاکستان کے ترجمان کےمنہ سے ادا کردہ یہ الفاظ کہ ’’ملک میں وزیراعظم ہی فائنل اتھارٹی ہیں، فوج آئین کی بالادستی اور جمہوری عمل کی حمایت کے لئے پرعزم ہے‘‘ فوج کے سیاسی معاملات سے لاتعلقی کے عزم کا واضح اظہار ہیں تاہم اس کا واضح و ٹھوس ثبوت آنے والے عام انتخابات کی شفافیت سے ہی سامنے آئے گا۔
قارئین! اس امر کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ عوام سیاسی کرداروں کے نت نئے روپ اور آئے روز نئے پرانے دعوئوں سےتنگ آچکے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت و جمہوری پسندوں کو مزید کیا گارنٹی چاہئے کہ ان کے اقتدار کو لاحق خطرات کے خدشات ختم ہوسکیں اور ان کی کچھ نظر عوام کے شیطان کی آنت کی طرح پھیلے مسائل پر پڑسکے۔ عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ جمہوریت کا شور مچانے والوں کی سیاسی بصیرت کا معیار اور اقتدار میں بیٹھ کر حکمرانی کے مقابلے کا طرز بھی عجیب ہے، ان حکمرانوں کی کارکردگی کا معیار عوام کی خدمت یا ملک کی ترقی و خوشحالی نہیں بلکہ Lesser evil کی بنیاد ہے، یعنی کہ کرپشن میں کمی یا کم کرپشن کرنے کو کارکردگی کا معیار گردانا جارہا ہے، عوام یہ بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ کبھی طاقتوروں کے کندھوں کو استعمال کرنے اور کبھی ڈکٹیٹروں کےسائے میں سیاست کرنے والوں کو محض عوام کی حمایت سے عزت و ناموس کمانے کا خیال بھی کبھی آئے گا۔ پاکستان میں شخصی ادوار کا خاتمہ کب ہوگا؟ جمہوریت و سیاسی استحکام محض حکمرانوں کے طاقتور بننےکی حد تک ہی کب تک پروان چڑھنے کا سلسلہ کب تھمےگا اور عوام کو خودمختار اور طاقتور بنانے میں تبدیل ہوگا؟ آئینی و جمہوری تقاضے پورے کرنے کا تقاضہ کرنے والے خود جمہور کے تقاضے کب پورے کریں گے؟ کب معیار و انتخاب خاندانی و شخصیت پرستی کی بجائے عوامی خدمت و پذیرائی ٹھہرے گا؟
یاد رکھئے، وقت آگیا ہے کہ حصول اقتدار کے بعد لامحدود اختیار کی جنگ کا خاتمہ کرکے ملکی ترقی ،بقا و سلامتی کو مقدم و لازم رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا جائے، اندرونی اور سرحدی محاذوں پر محض فوج نہیں، سب یک جان، متحد اور مکمل اتفاق رائے سے لڑنے اور آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ کریں، سیانے کہتے ہیں کہ راستے پر کنکر ہوں تو بھی ایک اچھا جوتا پہن کر اس پرچلا جاسکتا ہے لیکن جب ایک اچھے جوتے کے اندر ہی ایک کنکر ہو تو ایک اچھی سڑک پر بھی نہیں چلا جاسکتا، یعنی کہ انسان یا قومیں باہر کے چیلنجز اور بیرونی مخالفین کی وجہ سے نہیں ہارتیں بلکہ اپنے اندر کی کمزوریاں قوموں کی شکست کا سبب بن جاتی ہیں۔

.
تازہ ترین