• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات تو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ امریکہ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی فروخت میں سب سے آگے ہے، شاید یہ بات آپ کے علم میں نہ ہوکہ امریکہ بہادر کے دنیا بھر میں737فوجی اڈے ہیں جن کی قیمت لگ بھگ 137ارب ڈالر ہے ( قیمت سے مراد یہ ہے کہ اگر ان فوجی اڈوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے تو لاگت کم از کم137ارب ڈالر آئے گی) جو کہ بہت سے ملکوں کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے،2005میں امریکی فوجیوں کی تعداد جو بیرونی ممالک میں تعینات تھی دو لاکھ نو سو 75تھی جواب5 کے قریب پہنچ چکی ہے ان کی دیکھ بھال اور مدد کیلئے 98ہزار چار سو 25مزید امریکی شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فوجی اڈوں میں32 ہزار 23بیرکس، ہینگرز، اسپتال اور دوسری عمارتیں شامل ہیں علاوہ ازیں امریکی افواج نے ان ممالک میں مزید 16ہزار 5سو 27عمارتیں لیز پر لے رکھی ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فوجی اڈوں کی مندرجہ بالا تعداد کلی طور پر درست نہیں اور وہ یوں کہ پنٹاگون نے اس تعداد میں سربیا ، کوسوو، عراق، افغانستان، اسرائیل، کرغستان، قطر، ازبکستان اور ہمارے ’’پیارے ملک‘‘ پاکستان کے فوجی اڈوں کو شامل نہیں کیا اس طرح سابق صدر اوباما ناجائز دبائو ڈال کر جنگ کے نام پر اب تک ایک کھرب 83ارب ڈالر کی خطیر رقم کانگریس سے منظور کروا چکے ہیں۔ یہ رقم چین، روس، برطانیہ اور بھارت کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے، بش انتظامیہ نے ’’ہوم لینڈ سیکورٹی‘‘ کے نام سے ایک محکمہ قائم کر رکھا ہے جو سالانہ 50ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ دہشت گردی کے حملوں کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ میں داخلے کے تمام راستوں پر چیکنگ کی مد میں 25ارب ڈالر سالانہ خرچ کررہا ہے جس میں بتدریج ہر سال اضافہ ہورہا ہے 2010ستمبر میں اوباما حکومت نے عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کیلئے 190ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا جو منظور کرلیا گیا امریکی صدر اوباما نے آغاز حکومت سے عراق اور افغانستان کی جنگوں کیلئے درکار رقم میں 43ارب ڈالر کا اضافہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ اضافی رقم میں سے چھ ارب ڈالر افغانستان میں اضافی امریکی فوج کیلئے خرچ ہوں گے جبکہ گیارہ ارب ڈالر سے امریکی افواج کیلئے بارودی سرنگوں سے محفوظ سات ہزار بکتر بند گاڑیاں خریدی جائیں گی۔ وزیر دفاع جو غیر ملکی دورہ پر ہیں، نے سینیٹ کو بتایا کہ امریکی فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم ہوسکے اس لئے ہم نےرقم کا کچھ حصہ دشمن کے حملوں سے بچنے اور فوج کیلئے لڑاکا گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کیا ہے۔ 9ارب ڈالر مستقبل کی فوجی کارروائیوں کیلئے درکار ٹیکنالوجی اور آلات کی خریداری، چھ ارب ڈالر امریکی افواج کی فوری تعیناتی کیلئے ایک ارب ڈالر امریکی سہولتوں اور اڈوں کیلئے، جبکہ ایک ارب ڈالر افغانی سیکورٹی عملہ کی تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی کیلئے خرچ کیے جائیں گے ۔ ان فضول خرچیوں کیلئے اتنے ڈھیر سارے ڈالرز کہاں سے آئے تھے؟ جواب ہے تیسری دنیا کے ممالک سے اسکا ثبوت یہ ہے کہ سال 2015میں امریکہ نے تیسری دنیا کے ممالک کو دوسرے ممالک سے زیادہ ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ سال گزشتہ تیسری دنیا جسے تھرڈ ورلڈ بھی کہتے ہیں کے ممالک نے امریکہ سے ہی سب سے زیادہ ہتھیار خریدے ان ممالک نے 43فیصد ہتھیاروں کی خریداری امریکہ سے کی، جن کی مالیت 15.2بلین ڈالر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015ءمیں پاکستان، بھارت اور سعودی عرب نے سب سے زیادہ ہتھیار وحربی سازو سامان امریکہ سے خریدا، پاکستان نے صرف 2016میں 1.7بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدے۔ دکاندار، امریکہ نے اپنے مال کی فروخت کا جواز مہیا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیوکلیئر بموں سے لیس پاکستان مخالف دہشت گردی جنگ میں اہم حلیف ہے۔ اسامہ بن لادن کے نام پر اسلحہ کی فروخت امریکہ کیلئے ایک نہایت منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرگیا تھا یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک اسامہ کو جینے نہیں دیتے تھے اور امریکہ مرنے نہیں دیتا تھا ۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ القاعدہ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسامہ مرحوم اور القاعدہ کی حمایت میں زبردست کمی ہوئی ہے جبکہ امریکہ کے اسلحہ کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کو اسلحہ کی فروخت سے ہونے والی آمدنی 3.4ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے اگر آمدنی میں اضافہ نہ ہوتا تو امریکہ دنیا میں اپنے فوجی اڈوں کے تحفظ اور عراق و افغانستان جنگ پر 600بلین ڈالر کیسے صرف کرتا؟ کانگریس ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اوباما انتظامیہ عراق اور افغانستان جنگ پر ہر ماہ 13بلین ڈالر خرچ کرتی تھی ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف افغانستان پر ماہانہ اخراجات10بلین ڈالر آتے تھے، جبکہ تین بلین ڈالر افغان سیکورٹی کے حصے میں آتے تھے رپورٹ کے مطابق دیگر چھوٹے موٹے اخراجات اس میں شامل نہیں سی آر ایس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے مالی سال 2015کیلئے مزید فنڈز کی درخواست کی تھی جس سے 56بلین ڈالر صرف مڈل ایسٹ پرخرچ کئے گئے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ2017تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ 1.4کھرب ڈالر خرچ کر سکتا ہے۔
یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے گزشتہ ساٹھ برسوں میں امریکہ نے40غیر ملکی اور 23قوم پرست حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس میں کامیابی کا تناسب زیادہ ہے یہ حکومتیں اپنے عوام میں بے حد مقبول تھیں لیکن وہاں امریکہ کے مفادات محفوظ نہیں تھے ۔
جس کو چاہیں تباہ کر ڈالیں
ٓج کل آپ کا زمانہ ہے



.
تازہ ترین