• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رواں ماہ جب میں نے برداشت، صبر و تحمل پر مبنی پاکستان کی جانب پہلا قدم کے عنوان سے اپنا کالم روزنامہ جنگ کیلئے لکھا تو اسکی پذیرائی میرے وہم و گمان سے کہیں زیادہ ہوئی، معاشرے کے تمام امن پسند حلقوں نے میرے اس موقف کی تائید کی کہ ترقی و خوشحالی کا حصول پرامن معاشرے کے قیام کے بغیر ممکن نہیں، اگر ہمیں پاکستان کو ایک ترقی یافتہ فلاحی ریاست بنانا ہے تو ہمیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کو لے کر آگے چلنا ہوگا، قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کو یکساں آزادی میسر ہو، اس حوالے سے مختلف مکاتب فکر سے تجاویز کے تبادلے کے بعد میں نے دوسرا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، بلاشبہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کے محرکین میں میڈیا اور ایجوکیشن کا بنیادی کردار ہوا کرتا ہے، ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات میں اپنے تعلیمی اداروں جہاں ہماری قوم کے مستقبل کی کردار سازی کی جاتی ہے، کو وہ اہمیت نہیں دی جو ایک مہذب معاشرہ دیتا ہے، مردان میں یونیورسٹی طالب علم مشال خان کے پڑھے لکھے ماحول میں اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں ہولناک قتل سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ شدت پسندی اور عدم برداشت کا زہر تیزی سے ہماری نوجوان نسل میں سرایت کرتا جا رہا ہے، ہم اپنے موقف کو صحیح گردانتے ہوئے بزورِ طاقت ہر اس انسان کی جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں جو ہماری سوچ سے ہم آہنگ نہ ہو، دوسری طرف میڈیا دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور معاشرہ جس رویے کا مظاہرہ کرے، میڈیا وہی دکھاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کا موقف بھی ایک لحاظ سے اس لئے صحیح ہے کہ اگر وہ معاشرے میں پائے جانے والی سماجی برائیوں، ظلم و ستم کو اجاگر نہ کرے تو کیسے حکامِ بالا تک مظلوم کی آواز پہنچے لیکن معاشرے کے چند شدت پسند عناصر کے ظالمانہ جرائم پر رپورٹنگ سے مجھ سمیت متعدد محب وطن امن پسند شہریوں کا دِل خون کے آنسو بھی روتا ہے اور دوسری طرف عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج شدید متاثر ہوتا ہے، اس تمام صورتحال کا ذمہ دارانہ تجزیہ کرتے ہوئے میں نے میدانِ عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا کہ میڈیا، حکومت یا کسی اور کو موردِالزام ٹھہرانے کی بجائے مرض کی بروقت اور درست تشخیص کی جائے، یہاں میں یہ آگاہ کرتا چلوں کہ آج ہم جو انتہا پسندی کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں دیکھ رہے ہیں، ایسی ہی ناپسندیدہ صورتحال سے ماضی میں مغرب بھی گزر چکا ہے، یورپی ممالک کی آپس میں جنگ و جدل کی ایک طویل داستان ہے، ایک زمانے میں امریکہ میں کالوں کا داخلہ ریسٹورنٹ اور دیگر پبلک مقامات میں بند تھا، جنوبی افریقہ میں کالے اور گورے کے مابین سماجی تفریق انتہا پر تھی لیکن ان تمام معاشروں نے نفرت انگیز سماجی پالیسیوں کی بدترین ناکامی کے بعدیہی نتیجہ اخذ کیا کہ اگر دیرپا ترقی کو اپنی منزل بنانا ہے تو عدم برداشت اور شدت پسندانہ رویوں کو خیرباد کہنا ہوگا، معاشرے میں سماجی انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے تمام شہریوں کو یکساں حقوق کی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ آج 28یورپی ریاستوں پر مشتمل یورپی یونین دنیا بھر میں عالمی امن برداشت اوررواداری کے فروغ کیلئے سرگرم ہے، امریکہ دنیا کی واحد سپرپاورہے، آج کا جنوبی افریقہ کالے اور گورے باشندوں کے مابین مکمل سماجی ہم آہنگی کی بہترین مثال بن چکا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ مذہبی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے، تمام مذاہب کی تعلیمات ایک دوسرے کا احترام اور برداشت رواداری پر زور دیتی ہیں، ہمارے پاس تو میثاقِ مدینہ کی صورت میں امن و شانتی سے زندگی بسر کرنے کیلئے سنہری مثال بھی موجود ہے تو پھر آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو پاکستانی معاشرے کو عدم برداشت، انتہاپسندی اور منفی رویوں پر اکساکر ترقی کی دوڑ میں دیگر ممالک سے پیچھے کررہی ہیں،اس حوالے سے میں نے گزشتہ دنوں ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کی بنیاد رکھ دی ہے جسکی تقریب رونمائی کا انعقاد پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز میں اس بنا پر کیا گیا کہ پارلیمانی نمائندے پارلیمنٹ میں قوم کی آواز ہوتے ہیں اور موثرقانون سازی کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، میں نے جب کالم لکھا تھا تو میں اکیلا تھا لیکن میڈیا نیٹ ورک کی لانچنگ تقریب کے موقع پر پرہجوم ہال یہ ثابت کررہا تھا کہ مثبت رویوں پر مبنی پرامن معاشرے کے قیام پر سب کا اتفاق ہے، ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کالوگو معاشرے میں مختلف بیک گراونڈ کے حامل طبقات کے مابین قریبی تعاون کی عکاسی کرتا ہے، میں نہایت شکرگزار ہوں جناب وفاقی وزیرمذہبی اموراور بین المذاہب ہم آہنگی سردار محمد یوسف کا جنہوں نے میری تجویز کو سراہتے ہوئے بطور مہمان خصوصی تقریب میںشرکت کی، چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمدنے پروگرام کی اہمیت سمجھتے ہوئے نہ صرف خود شرکت کی بلکہ مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی شمولیت بھی یقینی بنائی۔ یورپی یونین، ماریشس، بلجیم، رشیا، آذربائیجان سمیت دیگر سفراکرام نے میرے پرخلوص دعوت نامے کو قبول کرتے ہوئے ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کی پہلی تقریب میںدلچسپی کا اظہار کیا، یورپی یونین کے سفیر جین فرانسس کاٹن نے اپنے خصوصی خطاب میں یورپی ممالک میں برداشت، رواداری کے معاشرے کے قیام کیلئے کی جانی والی طویل جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ معیاری تعلیم، سماجی انصاف اور احترامِ انسانیت موجودہ یورپی معاشرے کی نمایاں خصوصیا ت ہیں، اس حوالے سے عوامی سطح پر روابط کے فروغ کیلئے صحافیوں کیلئے فیلوشپ اور ایکسچینج پروگرام کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا تاکہ پاکستانی صحافی دنیاکے دیگر مہذب معاشروں کا مشاہدہ کرکے پاکستان میں برداشت پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
اس موقع پر ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کیلئے فوکل پرسن کی نامزدگی بھی کی گئی، لانچنگ تقریب میں ٹی وی اینکرز، کالمسٹ، بیوروچیفس اور رپورٹرز کی کثیر تعداد نے زور دیا کہ ماضی کی ناکام پالیسیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کیلئے مثبت لائحہ عمل تیا ر کیا جائے۔میں میڈیا نمایندوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے ٹولرینٹ پاکستان کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلانے کیلئے اہم تجاویز دیں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر لوک ورثہ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے آگاہ کیا کہ ہمارا فوک آرٹ اور لوک داستانیں انسانیت، بھلائی اور امن پر مبنی ہیں، ہمیں اپنے کلچر کی مثبت روایت کو لیکر آگے بڑھنا چاہئے۔چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ عدمِ برداشت صرف پاکستانی معاشرے تک ہی نہیں محدود بلکہ یہ ایک ایسی منفی سوچ ہے جس نے دنیا بھر کے معاشروں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، نوجوان نسل میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رحجان کی اہم ترین وجہ جنریشن گیپ ہے،اس موقع پر طے کیا گیا کہ ٹولرینٹ پاکستان میڈیا نیٹ ورک کی طرف سے ایچ ای سی کے اشتراک سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں مختلف تقریبات کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے گا۔اسی طرح میڈیا نمائندوںکو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مہینے میں کم از کم ایک دن مثبت رویوں کے فروغ کیلئے وقف کرنا چاہئے، ٹی و ی اینکرزمہینے میں ایک پروگرام برداشت کے موضوع پر کریں، رپورٹر مہینے میں کوئی ایک اسٹوری ایسی فائل کریں جس سے عدم برداشت کا خاتمہ ہوسکے، کالمسٹ ایک کالم ضرور اس موضو ع پر لکھیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اسی طرح یورپ سمیت مہذب دنیا نے اپنے اپنے معاشروں سے عدم برداشت اور منفی رویوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کی، میرا یقین ہے کہ نیک نیتی سے کی جانے والی جدوجہد کو خداوند تعالیٰ کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے، پرامن پاکستانی معاشرے کے قیام کیلئے کی جانے والی پرخلوص جدوجہدمستقبل میں بیش بہا مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

.
تازہ ترین