• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ یا دنیا کی کسی بھی دوسری مملکت پر بھروسہ کرکے اپنے اقتدار یا مملکت کی یکجہتی کو قائم رکھنے کی غرض سے حکمت عملی کو ترتیب دینے سے قبل سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے تجربات سے فائدہ اٹھانا مستقبل میں کسی نقصان سے بچنے کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ رضا شاہ پہلوی اپنی خود نوشت Answer to Historyمیں جب اپنی جلاوطنی اختیار کرنے سے قبل کی خارجہ حکمت عملی کا ذکر کرتے ہیں تو امریکہ پر اپنے بھروسے کا جا بجا تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جس پر بعد میں بھر پور اظہار تاسف بھی ان کی تحریر میں واضح طور پر پایا جاتا ہے وہ تحریر کرتے ہیں کہ1978-79 کے موسم خزاں اور موسم سرما کے دوران دونوں (امریکہ اور برطانیہ کے سفراء) ہم سے یہی کہتے رہے کہ زیادہ سے زیادہ شہری آزادیاں بحال کی جائیں۔ ہم خود اس کے حق میں تھے لیکن اس بحرانی کیفیت میں جبکہ ہمارے پاس تربیت یافتہ لوگ بھی نہ تھے، ایک دم شہری آزادیوں کی بحالی سے خطرناک نتائج برآمد ہونے کا احتمال تھا۔ اس کے پہلو بہ پہلو امریکہ سے بہت سے سیاستدان اور خصوصی نمائندے جو وقتاً فوقتاً ہم سے ملتے تھے وہ ہمیں سختی اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے کا بھی مشورہ دیتے تھے۔ اس ایک پیرے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف شاہ ایران کی ہمت بڑھاتا رہا جبکہ دوسری طرف شہری آزادیوں کے نام پر دھمکیاں بھی جاری تھیں۔ امریکہ پر بھروسہ کرنے کا انجام کیا ہوا۔ رضا شاہ پہلوی اپنی جلاوطنی جو ایک ملک سے دوسرے ملک درحقیقت دربدری تھی، میں امریکی وعدوں کی حقیقت ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں کہ ’’امریکہ کے وعدوں کی گھنٹی اب تک ہمارے کانوں میں بج رہی تھی‘‘۔ افسوس کے شاہ ایران کے عبرتناک انجام سے سبق سیکھنے کے بجائے خلیج میں بعض طاقتیں آج بھی اپنے داخلی تنائو سے توجہ ہٹانے اور داخلی سیاست میں بالادستی کی جنگ جیتنے کے لئے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کا سہارا لے رہی ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ایرانی فوج کے سربراہ کے بیان نے معاملات کو واضح کیا ہے۔ ایرانی سرحد پر افسوسناک واقعہ کے بعد ممکنہ بدمزگی کو رفع کرنے کی غرض سے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان آئے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی ہاٹ لائن قائم کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔ ابھی دورہ ختم ہی ہوا تھا کہ ایرانی فوجی سربراہ کا بیان سامنے آ گیا۔ اس کے بعد ایران کے سفیر نے پاکستان میں صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر ایرانی فوجی ترجمان دم سادھے بیٹھے تھے ورنہ ایرانی فوج اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کے علاقوں میں کوئی کارروائی کر گزرنا ان کے بس سے باہر کی بات ہے۔ مگر فوجی اتحاد کے معاملات پر اپنے جذبات پہنچانے کا یہ ذریعہ اختیار کیا گیا جو یقیناً نامناسب تھا۔ سعودی عرب بارک اوباما کے دور کے آخری حصے میں امریکی پالیسیوں سے پریشان تھا اور ان پالیسیوں کو اپنی یکجہتی کے لئے زہر قاتل تصور کر رہا تھا۔ اور اس پریشانی کے عالم میں سعودی عرب کو فوجی اتحاد بنانے کا راستہ بھی انہوں نے ہی دکھایا۔ اور اس اتحاد کی کیفیت کے سبب سے ایران اور سعودی عرب میں تعلقات مزید کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ پاکستان عالم اسلام کا فوجی اعتبار سے بہت مؤثر ملک ہے۔ لا محالہ سعودی عرب کی خواہش ہوئی کہ پاکستان اس اتحاد کا حصہ ہو۔ حکومت نے اپنی خواہش کا اظہار پارلیمنٹ کی کارروائی اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے واضح کر دیا۔ مگر جنرل راحیل شریف کی روانگی کسی اور کی خواہش کی بالادستی کو اس معاملے میں واضح کرتی ہے۔ صورتحال مزید گمبھیر اس وقت سے ہونا شروع ہوئی جب گزشتہ مارچ کے وسط میں برادر عرب ملک کے نائب ولی عہد نے امریکہ کا دورہ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلمانوں کا سچا دوست قرار دیا۔ برادر عرب ملک اس وقت سے محسوس کر رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی حکمت میں وہ دوبارہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور ان کی یکجہتی کو لاحق خطرات رفع ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کا سعودی عرب کا دورہ اور فوجی اہمیت کی کانفرنس میں شرکت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اس حوالے سے اب مطمئن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دو عشروں میں سعودی عرب کے تعلقات قطر سے بھی بار بار خراب ہوئے۔ اخوان المسلمین کے مسئلے پر 2014میں قطر سے سفیر تک واپس بلا لیا گیا تھا۔ اخوان المسلمین کے دور میں تو سعودی عرب کے تعلقات مصر سے خراب ہوئے ہی مگر حال ہی میں جزائر کے مسئلے پر موجودہ مصری حکومت سے بھی تنائو کی باتیں چلنا شروع ہو گئیں کہ کچھ جزائر کے حوالے سے اختلافات بہرحال موجود ہیں۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر پاکستان کسی دوسرے ملک کے نقش قدم کی پیروی میں جت گیا تو اختلافات صرف ایک ملک یا صرف ایک نظریے سے نہیں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں جو کسی وقت بھی سر اٹھا سکتے ہیں۔ کیا ہم ہر جگہ الجھتے پھریں گے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اس حوالے سے ایک اہم اسٹڈی کیس ہے۔ ایران کے لئے اس لئے کہ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ آدھا ملک عوامی رائے سے لڑتے ہوئے کھو سکتی ہے تو ایرانی اسٹیبلشمنٹ ایرانی انقلاب کیسے بچا پائے گی جبکہ امریکی وعدوں کا جو حشر مشرقی پاکستان سے شاہ ایران تک ہوا، سعودی عرب کیلئے سبق آموز ہے۔ پاکستان میں اس صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ’’بڑے‘‘ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور پارلیمنٹ کی اس حوالے سے کارروائی پر اصل روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنائیں کیونکہ کسی کے کانوں میں تو امریکی وعدوں کی گھنٹیاں بجنی ہی ہیں۔

.
تازہ ترین