• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سے موضوعات ہیں جن پر اظہار خیال ہونا چاہئے مگر اس کالم کا ا سکوپ محدود ہے لہٰذا چند مسئلوں پر ہی بات کریں گے۔ چین کے تاریخی منصوبے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ (اوبور) جو کہ دنیا کے کم از کم دو تہائی حصے میں پھیلے گا اور سب کیلئے سود مند ہوگا،پر بھارت بالکل تنہا رہ گیا ہے اور منہ سوجھائے بیٹھا ہے کہ وہ کس طرح سازش کرے تاکہ اسے کو ناکام کرسکے مگر کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا اس کی نہ تو اتنی سکت ہے اور نہ ہی اس کا بین الاقوامی مقام کہ وہ اس گرینڈ پروجیکٹ کو نقصان پہنچا سکے یا روک سکے کیونکہ ہر ملک اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ بھارت کے پڑوسی ممالک بشمول نیپال اور میانمار بھی اوبور کا حصہ ہیں۔ اوبور فورم جو کہ ابھی ابھی چین میں منعقد ہوا ہے میں 29ممالک کے صدور یا وزرائےاعظم نے شرکت کی اور 15سو کے لگ بھگ بین الاقوامی مندوبین نے اس میں حصہ لیا۔ بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا باوجود اس کے کہ اس پر اندرونی طور پر دبائو تھا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کرے وزیراعظم نریندرا مودی نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ بھارت کے اس روئیے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان ہے جو کہ اوبور میں ’’لنچ پن‘‘ ہے کیونکہ کھربوں ڈالر کا انٹرنیشنل ٹریڈ پاکستان کے ذریعے ہی ہونا ہے۔ ہمارے ہاں ہر اسٹیک ہولڈر چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ہر صورت چاہتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو تن دہی اور تیزی سے مکمل کرے تاکہ پاکستان اس سے بخوبی فائدہ اٹھا سکے۔ بھارت کے بائیکاٹ کی دوسری وجہ اس کی چین سے مخاصمت ہے جو کہ وہ امریکہ کی چین کے بارے میں ’’کنٹینمنٹ ‘‘ پالیسی کا حصہ ہے مگر کہاں انڈیا اور کہاں چین۔ چین اوبور کی تکمیل کر کے دنیا کا اقتصادی لیڈر بننے جارہا ہے اور آثار یہی ہیں کہ بن بھی جائے گا جبکہ بھارت کسی بھی میدان میں چین کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ جو ملک اپنے چھوٹے ہمسائیوں سے چھیڑ چھاڑ میں لگا رہے اس کو دنیا میں کوئی مقام حاصل نہیں ہوتا۔ جب تک بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل نہیں کرے گا اس وقت تک اس کی حالت ایسی ہی رہے گی۔ کچھ ماہ قبل مودی سرکار نے بڑے جوش و جذبے سے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کو دنیا میں سفارتی طور پر تنہا کر دیں گے مگر وہ ایسا تو نہ کرسکے ا ور خود ہی تنہا ہو رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے چین میں کافی فکر انگیز باتیں کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین تعاون کی قیمت نہیں مانگتا، ’’ڈو مور‘‘ کی تکرار نہیں کرتا،نہ ہی کبھی فوجی اڈے مانگے ہیں اور اوبور کا نظریہ خود مختاری کے احترام پر ہے۔ دراصل انہوں نے یہ کہہ کر امریکہ کی طرف اشارہ کیا جو کہ ہر بار ڈو مور کا راگ الاپتا رہتا ہے اور دوسرے بہت سے مطالبات بھی کرتا رہتا ہے جن کا پورا کرنا پاکستان کیلئے انتہائی مشکل ہے۔
دوسرا موضوع ہے برطانیہ میں پی آئی اے کے جہاز سے مبینہ طور پر منشیات کی برآمدگی ہے۔ شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جس کا دل یہ خبر سن کا خون کے آنسو نہ رویا ہو۔ حوس اور پیسے کے پجاری دنیا میں پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو اسے جلد از جلد سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے ہوا بازی مہتاب عباسی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ خدا کرے وہ اس اعلان کو نہ بھولیں اور اس پر عمل میں چند لمحوں کی بھی تاخیر نہ کریں۔ گزشتہ کئی برسوں سے پی آئی اے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ مالی مشکلات تو ہیں ہی جو دن بدن بڑھ رہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بدانتظامی اور سروس کے معیار کا گرنا بھی انتہا پر ہے۔ موجودہ حکومت نے کوشش کی تھی کہ وہ اسے پرائیویٹ سیکٹر کو دیدے مگر چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کی خاطر پیپلزپارٹی اور کچھ دوسری سیاسی جماعتوں نے اس کی ڈٹ کر مخالفت کی یہاں تک کہ حکومت کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ اب ہر سال وفاقی حکومت پی آئی اے کو اربوں روپے دے رہی ہے تاکہ وہ اس ادارے کو زندہ رکھ سکے۔ یہ اکیلا ہی سفید ہاتھی نہیں بلکہ اس طرح کے اور بہت سے تباہ حال ادارے بشمول پاکستان اسٹیل بھی ہیں جن کو وقتاً فوقتاً وفاقی حکومت کو ملازمین کی تنخواہوں کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ جب تک ان سفید ہاتھیوں سے جان نہیں چھڑائی جائے گی وفاقی حکومت ہرسال پانچ سو ارب کے لگ بھگ فنڈز اس مد میں ضائع کرتی رہے گی اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ ادارے دن بدن نیچے ہی جاتے رہیں گے۔ اگر دوسری طرف دیکھیں تو تمام پرائیویٹ ایئرلائنیں منافع میں جارہی ہیں اور ظاہر ہے اگر وہ نقصان میں جائیں تو ان کے مالکان انہیں فوراً بند کر دیں گے کیونکہ کوئی بھی گھاٹے کا کاروبار نہیں کرناچاہتا۔
تیسرا موضوع آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے متعلق ہے۔ اس مثالی پولیس افسر نے کئی ماہ بعد اب سندھ ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ وہ یہ عہدہ چھوڑنا چاہتے ہیں کیونکہ سندھ حکومت نے ان کیلئے کام کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ نہیں معلوم کہ پیپلزپارٹی کو کب سمجھ آئے گی کہ وہ کچھ ایماندار افسروں کے ساتھ بھی گزارا کرسکے۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت اس کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں وہ اپنی کئی دہائیوں کی تاریخ میں کبھی بھی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ نہیں سنبھلی اور اپنی پرانی ڈگر پر ہی چل رہی ہے۔ بلاشبہ اے ڈی خواجہ کو پیپلزپارٹی کی سندھ میں موجودہ حکومت نے ہی آئی جی لگایا تھا مگر چند ماہ بعد ہی وہ ان سے تنگ آگئی اور جان چھڑانے کا سوچتی رہی۔ بالآخر اس نے انہیں وفاقی حکومت کو سرنڈر کر دیا۔ تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے آرڈر جاری کر دیا جس کی کئی ہفتوں سے توسیع کی جارہی ہے۔ اے ڈی خواجہ ایک بہت نیک نام افسر ہیں جن کی ایمانداری اور دیانت پر کوئی دھبہ نہیں ہے۔وہ سیاسی مداخلت کو نہیں مانتے اور پولیس میں بھرتیاں صرف اور صرف میرٹ پر کرتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی کو کچھ ذرا بھی صحیح سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ کراچی کے حالات کو سامنے رکھ کر ان جیسے افسر کو ہی آئی جی سندھ رہنے دے۔کراچی کے حالات ٹھیک کرنے میں پولیس کا اہم کردار ہے اگرچہ رینجرز آپریشن کو لیڈ کر رہے ہیں۔
بالآخر وزیراعظم نوازشریف اور آصف زرداری جو ایک دوسرے پر ہمیشہ تنقید کے تیر برساتے رہتے ہیں میں ایک مسئلے پر تو اتفاق ہوگیا ہے کہ انہیں خیبر پختونخوا (کے پی) میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا ’’نیا پاکستان ‘‘ نظر نہیں آرہا۔ سابق صدر کا کہنا ہے کہ کے پی میں پرانا پاکستان بھی اجڑا نظر آرہاہے، نئے پاکستان والوں سے کوئی خوش نہیں اور سبھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ان سے بچائیں۔ مختلف شہروں میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ انہیں عمران خان کا نیا پاکستان کے پی میں نظر نہیں آرہا بلکہ انہوں نے تو پرانے پاکستان کا بھی حلیہ بھگاڑ دیا ہے اور اس صوبے میں نیا پاکستان تو ان کی حکومت بنا رہی ہے۔ دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی ہر وقت لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے کے پی کے میں نیا پاکستان بنا دیا ہے اور اب وہ 2018کے عام انتخابات جیت کر پورے پاکستان کو نیا پاکستان بنا دیں گے۔ یقیناً پی ٹی آئی کو کے پی کے میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی بناپر ہی ووٹ لینے ہیں۔ اسی طرح ووٹروں نے آصف زرداری کو سندھ حکومت کی کارکردگی کی بنا پر جج کرنا ہے اور وزیراعظم کو وفاقی حکومت کی کارکردگی کی بنا پر دیکھنا ہے۔

.
تازہ ترین