• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مزید غلطی کی گنجائش نہیں
وزیراعظم، فضل الرحمٰن رابطہ، خیبرپختونخوا اورفاٹا کے انضمام کیلئے قانون سازی موخر، یہ بات کیا محل نظر نہیں کہ آخرمولانا کیوں فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام نہیں چاہتے۔ گریٹر پختونستان کا کوئی خواب تو ان کو نہیں ستا رہا؟ یہ بات ہماری قیادت کے پیش نظر ہے کہ آج عدم انضمام کی باتیں ایک ایسے ماحول میں کی جارہی ہیں جبکہ بھارت نے پاک افغان سرحد کے ساتھ 19قونصل خانے یا را کے تربیتی مراکز کھول رکھے ہیں، افغان حکمران بھی بھارت کی باتوں میں آچکے ہیں، اور ان کے دل میں بھارت کے لئے سافٹ کارنر موجود ہے، امریکہ کی خاموشی بھی معنی خیز ہے، کیا سب سے بڑھ کر مولانا کا فاٹا سے تعلق ہے؟ وہاں کے باشندے ہیں اگر وہ انضمام چاہتے ہیں تو یہ قبائل کی آواز ہے، مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان کی سرزمین پر بھارتی برانڈ کی سیاست نہ کریں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اورفاٹا کے حوالے سے بھارت جو ڈیرے جما کر افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے، اچھے عزائم نہیں رکھتا، ہمیں آج کے سنیاریوں میں اپنی وزارت خارجہ اور سفارتکاری کو بہرصورت مضبوط کرنا ہوگا، آخر کیوں وزارت خارجہ تقریباً پانچ برس سے وزیر خارجہ سے محروم رکھی گئی ہے؟ درست ہے کہ سرتاج عزیز منجھے ہوئے ڈپلومیٹ ہیں کام چلا رہے ہیں لیکن باہر کی دنیا میں اچھا تاثر نہیں جارہا کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں۔ سیاسی اتحاد کی خاطر اہم قومی معاملات میں مولانا کی ڈکٹیشن نہ لی جائے، نوازشریف سرد و گرم جہاندیدہ سیاستدان ہیں، وہ پری پارٹیشن سیاسی ذہنیت سے چوکنا رہیں، ہم زیادہ گہرائی میں نہیں جانا چاہتے سب کو سب کچھ معلوم ہے۔ ہم اپوزیشن سے بھی حب الوطنی کے ناتے توقع رکھتے ہیں کہ وہ قانون سازی میں تاخیر نہ ہونے دے، فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنا ہمارے صوبے خیبرپختونخوا کو مضبوط بنانے کی طرف اہم قدم ہوگا، فاٹا کو کیوں صوبہ در صوبہ بنایا جارہا ہے؟
٭٭٭٭٭
لوڈشیڈنگ سیاسی روگ بمعہ سیاسی سوگ
لوڈشیڈنگ تو پچھلی حکومت سے ہوتی آئی ہے، اب اشیائے ضرورت کی مانند کچھ مزید اوپر چلی گئی ہے، اور جونہی انتخابات قریب آئے سیاسی جماعتوں نے لوڈشیڈنگ کے خلاف آواز اٹھانی شروع کردی، اس کی بنیادی وجہ عوام الناس کا شدید گرمی میں بری طرح متاثر ہونا ہے، حکومت کو پہلے سے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہ لوڈشیڈنگ کا ازالہ ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہے تاخیر در تاخیر سے یہ مسئلہ ن لیگ کیلئے سیاسی روگ جبکہ اپوزیشن کیلئے سیاسی سوگ کا کام دے سکتا ہے، جسے منا کر وہ عوام کو حکومتی جماعت کیخلاف موثر انداز میں برافروختہ کرسکتے ہیں، بلکہ اب تو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے عام لوگوں نے سوچ لیا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے والوں ہی کی تائید کرینگے، یہ بات جیو رپورٹ کارڈ میں بھی سامنے آئی کہ بعض صوبوں کے ساتھ بجلی کی تقسیم کے حوالے سے امتیازی سلوک کم از کم دو صوبوں میں تو حکومتی پارٹی کو نقصان پہنچا سکتا ہے، نوازشریف نے جو وزراء رکھے ہوئے ہیں ایک سے ایک بڑھکر ہیں، مگرعابد شیر علی تو جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں، انہیں بیانات سے روکا جائے کیونکہ ن لیگ کی ساکھ کیلئے ان کا ہر بیان نادان دوست کی زبان ہے، جب گرمی کا پارہ چڑھتا ہے تو فطری بات ہے ہر انسان جو متبادل وسائل گرمی سے نمٹنے کیلئے نہیں رکھتا، اب لوڈشیڈنگ عوام پر عذاب کے ساتھ خود حکمرانوں کیلئے بھی پریشان کن معاملہ ہے، کیونکہ ان کی سیاست دائو پر لگ سکتی ہے، بعض اوقات سی پیک کی گھنی چھائوں میں لوڈشیڈنگ اوجھل ہو جاتی ہے، مگر صرف کوئی حکمرانوں کی نظر وں سے عوام کی نظروں سے نہیں۔
٭٭٭٭٭
صوبائی دارالحکومت لاہور کو یکساں تحفظ دیا جائے
اس وقت صوبائی دارالحکومت لاہور میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ اضافہ پوش بستیوں پر اثر انداز نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں اندرونی سیکورٹی کے ساتھ حکومتی سیکورٹی بھی باقاعدگی سے دستیاب ہے، پولیس پٹرولنگ مال روڈ کے پار فعال دکھائی دیتی ہے، مگر اس پار کے لاہور میں اس کی صرف جھلک نظر آتی ہے، سرشام کوئی بچی اپنی اکیڈمی تک نہیں جاسکتی، ہر روز موبائل، پرس چھیننے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، مغلپورہ سے لیکر واہگہ تک کا علاقہ بالخصوص کرائم پاکٹ ہے، ہربنس پورہ، مغلپورہ، سلامت پورہ، عامر ٹائون، کینال بینک، کینال پوائنٹ، الغرض نہر کے دونوں جانب بستیاں اس لئے انتظامیہ کی نظر سے اوجھل ہیں کہ ان کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی، البتہ یہی وہ عوامی آبادیاں ہیں جہاں سے ووٹرز کا ٹرن آئوٹ خاصا تگڑا ہوتا ہے، کوئی ایم پی اے، ایم این اے حکومتی غیر حکومتی ان عام عوام کے پاس نہیں آتا ان کے مسائل نہیں سنتا لیکن اسی شہر میں خاص عوام بھی رہتے ہیں ان کے علاقوں میں تھانے جاگتے رہتے ہیں، پٹرولنگ ہوتی ہے، باوردی بھی بے وردی بھی، لیکن عام عوام کو یہ اعزاز حاصل نہیں، ووٹ مانگنے تمام آئینگے، ہر محفوظ فیصلے کی طرح اب ان عوامی بستیوں کو بھی اپنا ووٹ دینے کا فیصلہ کرلینا چاہئے کیونکہ فصلی پھیرے لگیں گے بعد میں صرف اشرافیہ ہی کو تحفظ حاصل ہوگا۔ ہم نے جن غفلت زدہ آبادیوں کا ذکر کیا ہے وزیراعلیٰ ان کے تھانوں کی وردیاں بیلٹس ذرا کس دیں خاصی ڈھلی ہو چکی ہیں اور ایک بڑا مسئلہ ان آبادیوں میں ہوائی فائرنگ کا ہے، ہر تھانہ آواز سنتا ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیتا ۔
٭٭٭٭٭
ناگفتنی ناکردنی نادیدنی
٭....عمران خان: مک مکا نامنظور،
خان صاحب ذرا احتیاط سے، کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔
٭....آصف زرداری: شیر درندہ، سونامی تباہی،
مگر سونامی تحریک انصاف کا انتخابی نشان تو نہیں البتہ شیر جو چڑیا گھر میں یا جنگل میں ہوتا ہے مردہ درندہ ہوتا ہے باقی تو اس کی تصویریں یا مجسمے ہوتے ہیں۔
٭....وفاقی وزیر بجلی و پانی نے ریکارڈ بجلی کا دعویٰ کیا ہے،
لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو دوسری بار استعمال کرنا بھی ایک ریکارڈ ہے،
یہ 17ہزار 720میگاواٹ تاروں میں تو نہیں ہیں کہیں ستاروں میں تو نہیں پہنچا دیئے؟
٭....آئی جی سندھ: کام نہیں کرنے دیا جارہا عہدہ چھوڑ رہا ہوں،
جب کام نہیں چھوڑ سکتے تو پھر اس ملک میں عہدہ ہی چھوڑنا ہوگا، ایک دیانتدار فعال پولیس افسر کو یوں تنگ کرنے والے، ضائع کرنے والے اپنے لوگوں کو کیا دے سکتے ہیں؎
نادیدنی کی دید سے ہوتا ہے خون دل
بے دست و پا کو دیدہ بینا نہ چاہئے

.
تازہ ترین