• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی عدالت کا حکم،بھارت کا جیت کی خوشی میں شور،حقیقت برعکس

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی میڈیا کلبھوشن سے متعلق بھارتی درخواست پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر خوشی میں شور مچارہا ہے کہ عالمی عدالت نے بھارتی موقف کو درست قرار دیدیا، بھارتی میڈیا میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو عالمی عدالت میں شکست ہوگئی، بھارت کی بہت بڑی فتح ہوگئی، بھارت نے پاکستان کو جھوٹا ثابت کردیا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، عالمی عدالت انصاف کے حکمنامے کو جس طرح میڈیا میں پیش کیا جارہا ہے ایسا کچھ نہیں ہوا، آج کے حکمنامے میں عالمی عدالت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں قونصلر رسائی نہ دینے کے خلاف بھارتی درخواست پر عدالتی دائرہ اختیار کے تعین کے فیصلے تک عبوری حکم جاری کیا ہے، یعنی جب تک عدالتی دائرہ اختیار جسے پاکستان نے چیلنج کیا ہے عدالت اس کا تعین نہیں کرلیتی اس وقت تک کلبھوشن کی پھانسی کو روک دیا جائے، ابھی تک عدالت نے دائرہ اختیار پر فیصلہ نہیں دیا، قونصلر رسائی کا اختیار نہیں دیا، جب تک عدالت یہ فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک پاکستان میں کہیں کلبھوشن کو پھانسی نہ ہوجائے اس بات کے مدنظر صرف پھانسی کو روکا گیا ہے، پاکستان سے کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرہ کار کے تعین کے فیصلے تک کلبھوشن کی پھانسی پر عملدرآمد نہ کیا جائے، عالمی عدالت کا حکم میں کہنا ہے کہ یہ فیصلہ جلد اس لئے دیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ دائرہ کار اور رسائی کا معاملہ طے ہونے سے پہلے ہی کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں پھانسی نہ دیدی جائے، عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس معاملہ پر کوئی یقین دہانی نہیں کروائی تھی کہ پھانسی اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک عدالت فیصلہ نہیں دے گی اس لئے یہ عبوری حکم جاری کیا گیا کیونکہ یہ ایک فوری نوعیت کا معاملہ تھا، عالمی عدالت انصاف نے اپنے عبوری حکمنامے میں مزید کہا ہے کہ آج کے حکم کا اثر کسی بھی طرح اس معاملہ پر آنے والے حتمی فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ ماہر بین الاقوامی قوانین ریما عمر کا پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقدمہ لمبا چلے گا،فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف نے اپنے حکمنامے میں مزید کہا ہے کہ اب تک ہونے والے دلائل اور ان پر غور کرنے کے بعد عدالت سمجھتی ہے کہ کسی بھی شہری کی قونصلر رسائی کا معاملہ ویانا کنونشن 1963ء کے تحت عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں آتا ہے مگر ابھی اس کا تعین ہونا باقی ہے تاہم کنونشن میں کہیں نہیں لکھا کہ قونصلر رسائی کا معاملہ جاسوسی میں ملوث افراد پر لاگو نہیں ہوتا، عالمی عدالت نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2008ء میں قیدیوں کو قونصلر رسائی کا ہونے والا دو طرفہ معاملہ عدالت کے دائرہ کار کو تبدیل نہیں کرسکتا، عالمی عدالت انصاف کے جج نے کہا کہ پہلے عدالت اس کیس کی سماعت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے گی اس کے بعد بھارتی درخواست پر قونصلر رسائی کا معاملہ دیکھے گی، یعنی جو بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ دائرہ اختیار پر بھی فیصلہ ہوگیا، قونصلر رسائی کا بھی معاملہ ہوگیا، ایسا کچھ نہیں ہوا، عدالت نے صرف یہ کہا کہ جب تک ہم فیصلہ نہ کردیں پاکستان کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ کرے، یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ پاکستان نے قونصلر رسائی نہیں دی، فیئر ٹرائل نہیں ہوا اس لئے پہلے قونصلر رسائی دیں اور ٹرائل دوبارہ کریں،ویسے بھی یورپی ممالک میں پھانسی کی سزا کے اوپر بڑے تحفظات ہیں، پاکستان پر بھی دباؤ رہتا ہے کہ پھانسی کی سزانہیں ہونی چاہئے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ برطانوی نشریاتی ادارے  کو انٹرویو میں وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی سب سے مقدم ہے، کلبھوشن کیس میں کوئی بھی فیصلہ بیرونی دباؤ کے بجائے قومی سلامتی کو دیکھتے ہوئے کریں گے، دفتر خارجہ کی ویب سائٹ پر اٹارنی جنرل کی پریس ریلیز میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے باوجود کلبھوشن یادیو کے کیس کا اسٹیٹس تبدیل نہیں ہوگا، پاکستان اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہے، پاکستان نے کلبھوشن کیس کی سماعت میں حصہ عدالت کے احترام کی وجہ سے لیا، مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ قونصلر رسائی میں سیکیورٹی بہت ہی اہم وجہ ہے، کیس پاکستان میں قانون کے مطابق جاری رہے گا۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا شور بھی مچارہا ہے، جشن بھی منارہا ہے، پاکستان کیخلاف بھی پراپیگنڈہ کررہا ہے لیکن ہم نے آپ کو وہ بھی سنایا جو عدالت نے کہا ہے، اس کے علاوہ قانونی ماہرین کی رائے بھی سنائی کہ ابھی فیصلہ ہونا ہے، کیس کی سماعتوں میں ایک سال بھی لگ سکتا ہے، بھارت نے قونصلر رسائی کا جو کہا ہے اس کا فیصلہ کرنے میں بھی یا جو پاکستان نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کا دائرہ اختیار نہیں ہے اس میں بھی، مگر اس سے پہلے پھانسی نہ ہوجاتی اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت تک پھانسی نہ دے جب تک ہم فیصلہ نہ کردیں۔شاہزیب خانزاد ہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جمعرات کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں انتہاپسندی کے خاتمے میں نوجوانوں کے کردار کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کیا جس میں انہوں نے اہم باتیں کی، وہ تمام باتیں کیں جو پاکستان کے موجودہ حالات جس میں پاکستان کو دہشتگردی ہی نہیں انتہاپسندی کا ہی سامنا ہے اس سے نکلنے کیلئے لازمی ہے کہ پاکستان کوا یک clarity of thought چاہئے، وہ تمام ان باتوں میں نظر آتی تھی کہ دہشتگردی سے ہی نہیں انتہاپسندی سے بھی نمٹنا لازمی ہے، اس وقت نوجوانوں کا کیا کیا کردار ہوسکتا ہے اور اس وقت کیا کیا خطرات ہیں، انہوں نے نوجوانوں کو درپیش خطرات سے متعلق اہم اور دوٹوک موقف اپنایا، انہوں نے نوجوانوں کو مستقبل کا سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے چہرہ اور بے نام قوتیں سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہیں، ہم دہشتگردوں کے ساتھ ملک دشمن قوتوں کے نشانے پر بھی ہیں، دشمن ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کررہا ہے اور مین اسٹریم میڈیم میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون جیسے پلیٹ فارمز استعمال کیے جارہے ہیں، ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ہمارے معاشرے میں خراب حکمرانی اور انصاف کی کمی کی وجہ سے نوجوانوں کا استحصال ہورہا ہے، آرمی چیف کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک دہشتگردوں کی مدد کررہے ہی، مشرقی پاکستان کی پراکسی وار میں بھارتی قیادت کا ملوث ہونا کوئی راز نہیں اور اب بلوچستان میں بھی ان کے مقاصد ڈھکے چھپے نہیں ہیں، انتہاپسندی کیخلاف گھر، تعلیمی ادارے اور میڈیا ہاؤسز ہماری پہلی دفاعی لائن ہیں، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جب وہ تعلیمی اداروں کی بات کرتے ہیں تو اس میں اسکولز، مدرسے اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے شامل ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ ہم نے دہشتگردی کو مل کر شکست دی ہے اور اب انتہاپسندی کو بھی اپنی اقدار، ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی توانائیوں کے ساتھ مل کر ہرائیں گے، انہوں نے بتایا کہ اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ بچے کھچے دہشتگرد پاکستان کی زمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ کریں اور نہ ہی ہم کسی اور جانب سے یہ برداشت کریں گے، آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کو جسمانی طور پر شکست دینے کے بعد اب ان کی دھوکا بازی پر مشتمل سوچ کو بھی ہرانا ہوگا، یہ وہ اہم بات ہے جو دہشتگردی اور انتہاپسندی میں فرق کر کے دونوں کو ختم کر کے پاکستان کے مستقبل کیلئے لازمی ہے، سپہ سالار نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے اس لئے پاکستان کی تعمیر نو کیلئے معاشرے سے تشدد ختم کرنا ہوگا کیونکہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم پیچھے رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، سیمینار میں موجود شرکاء کے مطابق آرمی چیف نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں فوج اور اس سے پہلے خود انہیں نشانہ بنایا گیا، آرمی چیف نے بتایا کہ پہلا فیصلہ کیا تو بیٹے نے کہا کہ آپ نے ایک مقبول لیکن غلط فیصلہ کیا ہے، دوسرا فیصلہ کیا تو بیٹے نے کہا کہ آپ نے غیرمقبول مگر درست فیصلہ کیا ہے، یہ ایک انتہائی بات ہے جو محفل کے شرکاء بتاتے ہیں، ظاہر ہے شرکاء کی طرف سے حوالہ نہیں دیا گیا مگر حالیہ جو نیوز لیکس کے حوالے سے ٹوئٹس کا معاملہ تھا جس میں وزیراعظم کے directives کو مسترد کیا گیا اور اس کے بعد اس ٹوئٹ کو واپس لیا گیا، ایسا لگتا ہے کہ یہ بات اس پیرائے میں کی گئی ہے، بڑی اہم ہے پاکستان کے آگے بڑھنے کیلئے کہ پاکستان کی سویلین قیادت ہو یا عسکری قیادت ہواور پاکستان کی سویلین قیادت حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہو وہ اس بات کو فرق کر کے آگے بڑھے کہ مقبول فیصلہ لازمی نہیں ہے کہ درست فیصلہ بھی ہو، قومیں اور ممالک درست فیصلے سے آگے بڑھتی ہیں اور لیڈرشپ اسی بات کا ثبوت ہوتی ہیں، لیڈر یہی بات ثابت کرتا ہے کہ وہ مقبول نہیں بلکہ درست فیصلے کرے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سعودی عرب پر نائن الیون حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگانے اور انتخابی مہم میں سعودی عرب پر تنقید کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنا پہلا دورہ ہی سعودی عرب کا کرنے جارہے ہیں، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے، دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات بھی ماضی جیسے نہیں ہیں، امریکا جو سعودی عرب سے دور ایران کے قریب آرہا تھا ایک بار پھر سعودی عرب کے قریب اور ایران سے دور جاتا نظر آتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے سرکاری غیرملکی دورے پر سعودی عرب جارہے ہیں، اس کے بعد وہ اسرائیل اور پھر روم جائیں گے،ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب میں اکتیس مئی کو ہونے والی عرب اور اسلامی ممالک کی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے جس کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کی یہاں ملاقات متوقع ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سعودی عرب نے اس دورے سے خاصی امیدیں جوڑ رکھی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اس دورے کے دوران تاریخ کی بڑی اسلحہ کی ڈیل کا بھی اعلان کریں گے، عرب امریکا تعلقات کا مستقبل اس اہم دورے سے جڑا ہوا ہے، امریکی میڈیا بہت حساس طریقے سے اس دورے کو دیکھ رہا ہے اور خدشات کا اظہار کررہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو بات منہ میں آتی ہے کہہ دیتے ہیں اس لئے ان کے منہ سے نکلا ایک جملہ ڈیزاسٹر بھی ثابت ہوسکتا ہے یا یہ دورہ مثبت بھی ہوسکتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بھی کشیدہ ہیں، دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کی جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا ہے، پہلے سعودی وزیر دفاع نے بیان دیا کہ تہران کے ساتھ بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ہم اس بات کا اعتراض نہیں کریں گے کہ جنگ سعودی عرب تک آجائے بلکہ جنگ ایران تک لے جائیں گے، اس بیان پر ایرانی وزیردفاع نے بھرپور جواب دیا کہ اگر سعودی عرب نے جنگ ایران تک لانے کی کوشش کی تو سعودی عرب میں مقدس مقامات کے سوا کچھ نہیں بچے گا، اس کے علاوہ ایران کو اسلامی فوجی اتحاد پر بھی اعتراض ہے، ان حالات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دورئہ سعودی عرب خطے کی صورتحال بدل سکتا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کو جس بات سے سب سے بڑا خطرہ ہے اس کے آثار مزید نمایاں ہورہے ہیں، پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران 200فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود یہ اضافہ ہوا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ بیرونی سیکٹر کیلئے بڑاخطرہ ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے معاملہ پرا یک بحران سر اٹھانے کیلئے تیار ہے، پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہورہا لیکن امپورٹ میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے، فی الحال یہی کہا جارہا ہے کہ جیسے ہی بجلی کی کمی ختم ہوجائے گی اور سی پیک کی وجہ سے روڈ اسٹرکچر اور پاور انفرااسٹرکچر بنے گا تو پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھیں گی اور جی ڈی پی بھی بڑھے گا۔ ماہر بین الاقوامی قوانین ریما عمر کی گفتگو شاہزیب خانزادہ: کیا اس فیصلے کو اس طرح read کرنا درست ہے کہ صرف اور صرف پھانسی کی سزا پر فی الحال عملدرآمد روکا ہے کہ جب تک ہم عدالت کے دائرہ اختیار اور قونصلر رسائی کے معاملہ پر فیصلہ نہیں کردیتے اس وقت تک پھانسی کی سزا پر پاکستان عملدرآمد نہ کرے، کیا ایسا ہے یا حقیقتاً آئی سی جے وہ مان گئی ہے جو بھارت نے کہا تھا؟ ریما عمر: آپ نے بالکل ٹھیک کہا، میرا نہیں خیال کہ اس میں دو رائے ہوسکتی ہیں، یہ ایک عارضی اقدام ہے، انڈیا کی درخواست عارضی اقدام کی ہی تھی جس کو عام زبان میں عبوری آرڈر بھی کہا جاسکتا ہے، فی الحال نہ دائرہ اختیار کا فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی میرٹ کا فیصلہ ہوا ہے، آئی سی جے نے صرف یہ کہا ہے کہ پاکستان کلبھوشن یادیو کو کیس کے دوران پھانسی نہیں دے سکتا ہے،عالمی عدالت کی سماعتیں ابھی بہت لمبی چلیں گی، کئی مہینے تو دائرہ اختیار کا فیصلہ ہونے میں لگ جائیں گے جبکہ میرٹ کا فیصلہ ہونے میں کئی سال تک لگ سکتے ہیں،حتمی فیصلہ آنے میں ابھی وقت ہے۔ شاہزیب خانزادہ: عالمی عدالت کو آپ فالو کرتی رہی ہیں، آپ کے اپنے خیال میں اس قسم کے کیسز میں بہت وقت لگ جائے گا، پاکستان کو ظاہر ہے کہہ دیا گیا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہ کریں اور جب تک وہ فیصلہ کرتے ہیں اس میں سال یا اس سے زیادہ ٹائم بھی لگ سکتا ہے؟ ریما عمر: اکثر کئی سال تو لگتے ہیں، دو تین سال عام ایوریج ہے، قونصلر رسائی کے حوالے سے تین چار کیسز پہلے بھی ہوچکے ہیں جس میں عارضی معاملات پر تو چند دنوں میں ہی آرڈر آجاتا ہے جوا کثر اسٹے کا ہی آتا ہے، اس کے کئی سال بعد حتمی فیصلہ آتا ہے، اس میں سیاست بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، کئی ایسے کیسز ہیں جو کوئی پارٹی pursu نہیں کرتی یا کیس کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن اگر پروسیڈنگز چلتی رہیں اور پاکستان اور انڈیا اپنے اپنے موقف پر قائم رہے تو کئی سال لگ سکتے ہیں، دو تین سال لگ سکتے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: آپ پاکستان سے باہر لاء پریکٹس کرتی ہیں، بین الاقوامی قوانین بھی فالو کرتی ہیں، آپ نے پتا نہیں پاکستانی میڈیا یا سوشل میڈیا فالو کیا یا نہیں کیا، پاکستان میں ایک بحث ہے کہ پاکستان کے وکیل نے کیس صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا، دوسری شقیں ایسی تھیں اگر ان کی بنیاد پر کیس پیش کرتے تو آج اس قسم کا فیصلہ نہیں آتا، پاکستان کا وکیل اچھا نہیں تھا یا اس نے کیس اچھا پیش نہیں کیا، آپ بطور قانون دان ایسے معاملات کو دیکھتی بھی ہیں، آپ کے خیال میں صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں کیا گیا، اس کو بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا؟ ریما عمر: میں پہلے تو یہ کہنا چاہوں گی کہ اکثر ہم بہانے ڈھونڈتے ہیں، اس کیس سے جو اہم بات پتا لگی ہے اس پر کوئی بات نہیں کررہا ہے، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ویانا کنونشن قونصلر اینڈ ریلیشنز کی پارٹی ہے، پاکستان کو اس کنونشن کی شقوں کو فالو کرنا ہے جو پاکستان نے کلبھوشن کے کیس میں نہیں کیا، یہ کہنا کہ وکیل نے نوے منٹ کے بجائے چالیس منٹ بات کی، پاکستان نے ایڈہاک جج اپائنٹ نہیں کیا، یہ سب بہانے ہیں ہمیں اصل میں جو قانون ہے اس کو سمجھنا چاہئے، اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو میں آپ کو بتادوں کہ اس کیس کے گرد ہماری جو پوری قانونی بحث چلی ہے وہ بالکل غلط ہے، انڈیا نے آئی سی جے کی جو jurisdiction claim کی ہے اور جس پر آج آئی سی جے نے فیصلہ دیا ہے وہ 36/1 کا ہے، یہ بہت سادہ معاملہ ہے کہ دو پارٹیوں میں اگر کوئی dispute آتا ہے ایک treaty کا جس کے دونوں دستخط کنندہ ہیں تو آئی سی جے اس تنازع کو حل کریں گے، اس میں جو پاکستان کی unileteral declaration تھی، اس میں جو exceptions تھیں وہ بالکل اس کیس کو اثر نہیں کریں گی، چونکہ انڈیا پاکستان کا معاملہ تھا ہم نے لیگل پہلو پر اتنا غور نہیں کیا سیاست میں زیادہ پڑگئے اس لئے کئی لوگ آج سرپرائزڈ ہیں اور انہیں آرڈر پر حیرت ہوئی ہے لیکن جن لوگوں نے اس کیس کو فالو کیا ہے، اسی طرح کے اور کیسز اور ممالک کے بیچ میں بھی disputes آتے ہیں جن کا آئی سی جے فیصلہ کرتا ہے، اگر ان کو دیکھا جائے تو یہ فیصلہ یہی آنا تھا، یہ کوئی غیرمتوقع چیز نہیں ہے، یہ سزائے موت کا کیس ہے، زندگی موت کا کیس ہے، آئی سی جے کیسے کہہ سکتا کہ آپ کلبھوشن کو پھانسی دیدیں، ایسا نہیں ہوسکتا تھا، فیصلہ یہی آنا تھا تو ہمیں بہانے نہیں ڈھونڈنے چاہئیں، یہ سمجھنا چاہئے کہ لاء کیا کہتا ہے ، ہماری حکومت اور وزارت خارجہ کو ایک اچھی ساؤنڈ ایڈوائس سے اپنے فیصلے کرنے چاہئیں، اس طرح کی political rhetric سے نہیں کرنے چاہئیں، اپوزیشن پارٹیاں بھی اب پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں، یہ کوئی بات نہیں ہے، پاکستان کا کیس اس لئے کمزور تھا کیونکہ facts ہماری favour میں نہیں ہیں اس لئے نہیں کمزور تھا کہ lawyer نے صحیح طرح argue نہیں۔عالمی عدالت انصاف کے سابق جج علی نواز چوہان کی گفتگو شاہزیب خانزادہ: چوہان صاحب کیا یہ درست ہے کہ یہ ایک عبوری فیصلہ ہے جس میں پاکستان کو کہا گیا ہے کہ جب تک ہم فیصلہ نہ کرلیں بھارت کی درخواست پر یا پاکستان نے جو ہمارا دائرہ اختیار چیلنج کیا ہے اس پر، اس وقت تک سزا پر عملدرآمد نہ کیا جائے، ایک عبوری فیصلہ؟ علی نواز چوہان: عالمی عدالت کا یہ فیصلہ عبوری ہے، protect کررہا، جس طرح کوئی عمارت گرانے والا آئے اور گرانا چاہے توا س کو اسٹے آرڈر مل جاتا ہے کہ وہ بلڈنگ نہ گرائے کہ جب تک عمارت کے مالک کا کون ہے اور تنازع میں کس کے حق میں بات جائے گی، پاکستان کی domestic jurisdiction تو outs نہیں ہوئی، صرف یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے اختیار میں ہے کہ وہ ایک نیا ٹریبونل بنائے یا نیا کورٹ بنائے اور اس میں due process کو ملحوظ رکھتے ہوئے process کرے، لہٰذا یہ کیس ابھی تک پاکستانی domestic jurisdiction کے اندر ہے اور پاکستان نے فیصلہ کرنا ہوگا evidence کے اوپر، پاکستانی ججز نے کہا وہ گناہ گار ہے یا بے گناہ ہے۔
تازہ ترین