• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعرات کے روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں قوم کے نوجوانوں سے براہ راست خطاب کی صورت میں اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی مگر محب وطن پاکستانیوں کو مصور پاکستان علامہ اقبال کے ایسے بہت سے اشعار یاد آگئے جن کے ذریعے برصغیر کی تاریخ کے اہم موڑ پر مسلم نوجوانوں کو آزادی کی قدر و قیمت سے نہ صرف آگاہ کیا گیابلکہ تدبر، تفکر اور قومی تقاضوں کے مطابق حکمت عملی کے تقاضوں سے روشناس کرایاگیا۔مفکر پاکستان نے قوم کو بتایا کہ حصول آزادی کا اعلان پڑائو نہیں، پہلی منزل ہے جس کے بعد تعلیمی، فکری اور عملی میدانوں میں زیادہ محنت و جدوجہد درکار ہوگی۔ ’’انتہا پسندی کو مسترد کرنے میں نوجوانوں کے کردار‘‘ کے زیر عنوان جب جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کے انتہائی نازک مرحلے میں ہیں تو یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ ہم ایک بڑے آپریشن کے بعد ایسے عبوری دور سے گزر رہے ہیں جس میں ’’ردالفساد‘‘ کے زیر عنوان بچے کچھے اور مختلف مقامات پر چھپے دہشت گردوں کا صفایا کرتے ہوئے ان مذموم سازشوں سے بچنے کا مرحلہ درپیش ہے جووہ معاشرے میں انتشار و اتفراق پھیلانے اور لوگوں کے ذہنوں کو انتہا پسندی کے زہر سے مسموم کرنے کے لئے شاطرانہ انداز میں جاری رکھے ہوئےہیں۔ بری فوج کے سربراہ نے اس خطاب میں کئی اہم پہلوئوں کی نشاندہی کی مثلاً یہ کہ پاکستانی فوج نے جو دنیا کی بہادر ترین فوج ہے اور کسی کے خلاف معاندانہ عزائم نہیں رکھتی، تمام پاکستانیوں کے تعاون سے دہشت گردوں کے خلاف انتہائی منفرد جنگ لڑی۔ یہ پہلو بھی اجاگر کیا کہ ہم صرف دہشت گردوں کے ہی نہیں بلکہ متعدد دشمن ایجنسیوں کے نشانے پر ہیں ۔ بھارتی قیادت نے تو اس بات کو چھپایا بھی نہیں کہ ان کا ملک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی پراکسی جنگ میں شامل تھا اور اب بلوچستان میں مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ ہم اس وقت جس دوراہے پر کھڑے ہیں، اس کے اثرات دس برس بعد یا تو ہمارے لئے کامیابی کے بہترین ثمرات کی صورت میں سامنے آئیں گے یا ہم یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ کس طرح ہمارے نوجوان شدت پسندوں کے ہاتھوں متاثر ہوئے اس لئے آپریشن ردالفساد کے ساتھ ساتھ ہمیں نیشنل ایکشن پلان کو نہ صرف پوری طرح بروئے کار لانا ہے بلکہ دہشت گردی کے دیگر اسباب کا بھی پوری طرح سدباب کرنا ہے۔ بلاشبہ سیکورٹی خدشات کم کئے بغیر معمول کی زندگی کو رواں کرنا اور ترقی کا سفر آگے بڑھانا ممکن نہیں۔ مگر ہم جب آئین میں متعین اداروں کی ذمہ داریوں اور ریاستی بازوئوں کی کارکردگی کے دائروں کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ دیگر ریاستی اداروں کی بھی ایسی آئینی ذمہ داریاں متعین ہیں جن سے غفلت کا نتیجہ فوج کی حاصل کردہ کامیابیوں کی اہمیت گھٹانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ سوات اور مالا کنڈ ایجنسی سمیت کئی شمالی علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا ہونے کے بعد سول ایڈمنسٹریشن بحال کرنے اور معمولات زندگی کی بحالی میں سست روی ان علاقوں کے لوگوں کے لئے قابل فخر کیفیت نہیں ۔اسی طرح یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ ملک بھر میں سرکاری تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور دیگر اداروں کی بگڑتی ہوئی صورت حال، میرٹ کی پامالی اور کرپشن کی صورت حال نوجوانوں میں غصہ کی کیفیت کو جنم دے رہی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ جس ملک کی زمینیں اپنی زرخیزی میں بے مثال ہوں اور جہاں دنیا کا بہترین نہری نظام پایا جاتا ہو وہاں زرعی پیداوار اور سبزیوں کی قلت کی بار بار شکایات کیوں پیدا ہوتی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی قلت اور شہروں میں گندگی کے مسائل نت نئے سوالات ، شکوک اور انتہا پسند رویوں کو جنم دے رہے ہیں۔ اس صورت حال کے سنگین رخ اختیار کرنے سے پہلے حکومتی عہدیداروں، دانشوروں اور ماہرین کو مل کر مسائل کے ایسے حل تلاش کرنے چاہئیں جن میں ہمارے نوجوان انتہا پسندی کاشکار ہوکر بھارت کی طرح اپنا دامن تار تار کرنے کی اس کیفیت کی طرف بڑھتے ہوئے نظر نہ آئیں جو برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے قبل نظر آتی تھی۔

.
تازہ ترین