• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
5مئی کو موقر انگریزی روزنامے کے انٹرنیشنل صفحہ پر 5کالمی ایک تصویر ہے۔ جس میں کسی بات پر قہقہے کے بعد افغان صدر اشرف غنی، حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، عبدالرسول سیاف اور گلبدین حکمت یار مسکراتے ہوئے کابل میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ تصویر حکمت یار کی کابل واپسی پر ان کے استقبال کے موقع پر لی گئی ہے۔ تصویر میں اشرف غنی کے ماسوا تمام وہ کردار ہیں جن پر کسی نہ کسی طور افغانوں کے قتل کا الزام رہا ہے۔ حکمت یار اپنی ’’پارسائی‘‘ کا بھرم رکھنے کی خاطر ’نہ مسکرانے‘ کے حوالے سے معروف ہیں۔ اس موقع پر شاید وہ پارسائی کا خول بھول بیٹھے، یا اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی یا پھر وہ اس امر پر اپنے جذبات قابومیں نہ رکھ سکے اور قہقہہ مار کر والب یہ خیال کررہے ہیں کہ امریکی تابعداری کتنی پیاری ہے کہ وہ کابل، جس کی اُس نےاینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، وہاں ان کا استقبال ایک نجات دہندہ کے طورپر کیا جارہا ہے....یہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ 90کی دہائی میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت سے علیحدگی کے بعد جب امریکی پروردہ برہان ربانی اور حکمت یار میں تخت کابل کیلئے جنگ ہوئی تھی، تو حکمت یار کی فورسز نے کابل پر اتنی بمباری کی تھی کہ وہ کابل جو اب تک محفوظ تھا کھنڈر بن گیا تھا اور یہاں 50ہزار شہری ایک روز میں مارے گئے تھے۔ہم اس مجبوری و ضرورت سے آگاہ ہیں کہ بسا اوقات قوم و ملک کے لیے باغی کرداروں سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی نظریے یا اپنے تئیں ملی ہدف کے لیے اخلاص سے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں معاملہ قطعی برعکس ہے۔ نام نہاد مجاہد گروپس امریکہ و خلیجی ممالک کے مفادات کی خاطر جہاد کے مقدس نام کو بروئے کار لائے۔ روس کے جانے کے بعد باہمی لڑائیوں میں افغانستان کو تباہ کیا اور پھر افغانستان کو مزید تباہی و تاریکی کے لیے طالبان کے حوالے کرگئے۔ بعض نام نہاد مجاہدین ربانی، سیاف وغیرہ نے نائن الیون کے بعد اور حکمت یار اب امریکی پالیسی کی تقویت کے لیے کابل وارد ہوئے ہیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے گلبدین و کابل معاہدے کو اس طرح کی قومی مفاہمت نہیں قرار دیا جاسکتا بعض دیگر ممالک میں کہ جس طرح ایسے حالات میں باغیوں سے معاہدے ہوئے۔ حکمت یار ان عناصر میں سرفہرست ہیں جو ہر افغان دشمن موقع پر سب سے پہلے دستیاب ہوئے۔
امریکی صدر ریگن نے روس کے خلاف ہو بہو 13ویں صلیبی جنگ کی پالیسی اپنا کر امریکی جنگ کو Holy War(مقدس جنگ) ظاہر کیا، ڈالر، و ریالوں اور پاکستانی مذہبی عناصر و موقع پرست صحافیوں کے ذریعے ایسا اہتمام کیا کہ لوگ اسلام و افغان دشمنوں کو ’نام نہادمجاہد‘ باور کرنے لگے۔ امریکہ نے درجنوں تنظیموں کو شارٹ لسٹ کرتے ہوئے جن سات تنظیموں کو امداد کا اہل قرار دیا تھا ان کے رہنما یہی حکمت یار، ربانی، سیاف، محمدنبی محمدی، مولوی یونس خالص، سید احمد گیلانی اور صبغت مجددی تھے جو نائن الیون کے بعد بھی امریکہ کے کام آئے۔ یہ وہی نام نہاد مجاہد ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ میں کئے جانے والے معاہدے کو بھی پامال کیا اور روس کے جانے کے بعد باہم برسرپیکار ہوکر اتنی تباہی مچائی کہ سویت یونین کی موجودگی میں جس کا تصور بھی محال ہوتا۔یاد رہے روسی فوجوں کی موجودگی کے دوران اور پھر انخلا کے بعد معصوم بچوں، ضعیفوں و خواتین سمیت 30لاکھ افغانوں کے قتل کا الزام انہی نام نہاد مجاہدین پر ہے، جنہیں امریکا، برطانیہ، چین، جرمنی یہاں تک کہ اسرائیلی ایجنٹ تربیت دیتے تھے اور ان کی آماجگاہ پاکستان اور سہولت کار پاکستانی مذہبی لیڈر اور کئی صحافی تھے۔ اب تو یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ یہ جنگ امریکی بالادستی کے لیے ہی تھی، مگر جب پورا عالم یا تو امریکی آغوش میں یا سکتے میں تھا۔ ایک باچا خان ہی وہ ہستی تھیں جنہوں نے کلمہ حق بلند کیا اور کہا ’’یہ امریکہ و روس کی جنگ ہے،یہ جہاد نہیں فساد ہے، ہاتھیوں کی لڑائی میں شامت مینڈکوں کی ہی آتی ہے‘‘ وقت نے اس سارے کہے کو سچ ثابت کردیا ہے اور پوری دنیا پر آشکارا ہوچکا ہے کہ درویش بابا کی پیشین گوئی کے عین مطابق مینڈکوں پاکستان و افغانستان کی کس طرح شامت آئی ہے۔ بریگیڈئیر یوسف کی کتابوں خاموش مجاہد اور بیئر ٹریپ میں تفصیلات موجود ہیں، وہ اعتراف کرتے ہیں ’’امریکی افغان جنگ کو ایسا خدائی موقع سمجھتے تھے جس میں ایک امریکی کی جان دئیے بغیر روسیوں کو ہلاک کیا جائے، اس منصوبے میں جنرل اختر عبدالرحمن امریکیوں سے متفق تھے۔‘‘(صفحہ 63) دیگر شیطانی واقعات میں جائے بغیر یہاں ہم صرف یہ عرض کرتے ہیںکہ اور تو اور اسرائیل بھی اس ’کارخیر‘ میں پیش پیش تھا اور وہ جنرل حمید گل کے ممدوح گلبدین حکمت یار کے گوریلوں ہی کے لیے تربیت کا سامان کرتا تھا۔ Samson Optionمیں امریکی مصنف Seignrour Harshلکھتے ہیں کہ انہیں اسرائیلی جاسوس جو کہ اسرائیل کے محکمہ دفاع کا انٹیلی جنس افسر تھا، نے بتایا کہ ’’میں نے 1984میں لندن میں جنرل فضل حق سے متعدد ملاقاتیں کیں اور جعلی پاسپورٹ پر 1985میں پشاور آیا اور پارک ہوٹل میں قیام کیا، ہم دیگر اسرائیلی ایجنٹوں کے ساتھ تین سال تک حکمت یار کے کارندوں کو تربیت فراہم کرتے رہے‘‘۔چند روز قبل8مئی کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر میں سابق وزیر خارجہ سردار آصف علی نے بھی اعتراف کیا ہے، وہ کہتے ہیں ’’روس کیخلا ف جہاد غلط تھا، میں نے اس بات کا اظہارپارلیمنٹ میں بھی کیا تھا، اس جنگ کے دوران ایک ایسا وقت بھی آیا تھاجب اسرائیلی جرنیلوں نے پاکستان آکر معاونت کی‘‘۔
بات کو مختصر کرتے ہوئے دوسری طرف آپ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کو یاد کریں اور یہ بھی یاد کریں کہ وہ کون سی پاکستانی مذہبی و سیاسی جماعتیں اور دانشورو صحافی تھے جنہوں نے طالبان کو ’اپنا‘ بتایا، ان کے ضامن قرار پائے، ان سے مذاکرات کے لیے واویلا مچاتے رہے اور ڈرون حملوں میں ایسے عناصر کے مارے جانے کو امن کے عمل کو سبوتاز کرنے کی کارروائی کہتے رہے؟ اس کے بعد آپ آج کا منظر نامہ ملاحظہ فرمائیں جس میں پاک فوج نے طالبان کو را کا ایجنٹ ڈکلیئر کردیا ہے اور مذکورہ بالا ان کے تمام سہولت کاروں پر خاموشی چھائی ہوئی ہے! عکس بہ عکس یہ وہی چہرے ہیں جنہوں نے گلبدین سے لے کر سیاف و ربانی تک کو مجاہد مشہور کرایا تھا، اور اب ان کے کابل کی گود میں جا بیٹھنے پر ان کے ہاں پرسکون سکوت ہے۔ آخر پاکستانی عوام کے ساتھ یہ ڈرائونے ڈرامے کب تک کھیلے جاتے رہیں گے ۔

.
تازہ ترین