• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں بیجنگ میں منعقد ہونیوالا ’’ون بیلٹ ون روڈ فورم‘‘ دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا سربراہ اجلاس تھا جس سے چین کو ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ پر غلبہ حاصل ہوجائیگا۔ اجلاس میں شریک 29ممالک کے سربراہان نے باہمی اعتماد، سڑکوں اور ریلوے لنک کے ذریعے روابط کے ساتھ عالمگیریت کی حقیقی احساس پر مبنی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ پر اتفاق کیا جو ان ممالک میں انفرااسٹرکچر، ترقی، صنعت و تجارت، مالی مدد اور توانائی کے حصول کیلئے شروعات ہے۔ چین کے عظیم رہنما مائوزے تنگ نے چین کو آزاد ملک بنایا اور دینگ جیاپینگ چینی عوام کو عظیم قوم بنانے کے خواب کی تعبیر کے متمنی ہیں جبکہ چینی صدر شی جن پنگ ان کے خواب کی تعبیر کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف نے بیجنگ میں منعقدہ ’’ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) فورم‘‘ میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیر خزانہ اور وزیر منصوبہ بندی سمیت دیگر وفاقی وزرا کے ہمراہ شرکت کی۔ اس بین الاقوامی فورم میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت 29ممالک کے سربراہان اور 130ممالک سے تقریباً 1500مندوبین جن میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے سربراہان بھی شامل تھے، نے باہمی تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔ 14اور 15مئی تک جاری رہنے والے دو روزہ فورم کے دوران پاکستان اور چین نے تقریباً 500ملین ڈالر کے بھاشا ڈیم، گوادر ایئرپورٹ (333ملین ڈالر)، حویلیاں ڈرائی پورٹ اور ریلوے ٹریک کے منصوبوں کے 6اضافی معاہدوں پر دستخط کئے جس سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی مالیت اب تقریباً 57ارب ڈالر ہوجائے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے چینی وزیراعظم سے پاک چین اقتصادی راہداری کے 9 اسپیشل اکنامک زونز فاسٹ ٹریک بنیادوں پر تعمیر کرنے کی درخواست بھی کی۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی فورم میں شرکت پاک چین دوستی اور یکجہتی کیلئے پیغام تھا۔ فورم سے وزیراعظم نواز شریف، چین، روس اور ترکی کے صدور کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ علاقائی روابط میں شامل ممالک کی کوئی جغرافیائی سرحد نہیں لہٰذا ہمیں اسے سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کے 69ممالک کے علاقائی روابط کے اس منصوبے سے چین خطے میں سپر پاور بن کر ابھرا ہے اور منصوبے سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی فائدہ اٹھاسکے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی ’’پہلے امریکہ‘‘ کے بعد دنیا کے زیادہ تر ممالک چین کی گرینڈ اسکیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں، اوبور کا آغاز دو راستوں پر تجارت کو فروغ دینے کے انفرااسٹرکچر منصوبوں کے طور پر ہے، ایک راستہ قدیم شاہراہ ریشم کی بنیاد پر ہے جو چین سے نکلتا ہوا وسطی ایشیااور مشرق وسطیٰ سے گزرکر یورپ پہنچے گا جبکہ دوسرا راستہ چین کو سمندر سے جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی افریقہ سے ملائے گا۔ علاقائی روابط کے تحت چین افریقہ میں کینیا کے پورٹ سٹی ممباسا کو دارالخلافہ نیروبی سے ملانے کا 472 کلومیٹر ریلوے نیٹ ورک تعمیر کررہا ہے جو اسے کئی ممالک سے ملا دے گا، اس کے علاوہ چین کا ایگزم بینک افریقہ کے کئی ممالک میں ریلوے نیٹ ورک کیلئے بھی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین نے 2014-16ء کے دوران ون بیلٹ ون روڈ اسکیم کے تحت ان ممالک میں 304.9ارب ڈالر کے منصوبے سائن کئے ہیں اور اسی سال اوبور منصوبوں کیلئے اپنے تین سرکاری بینکوں میں 82ارب ڈالر منتقل کئے۔ چین کی 900 ارب ڈالر کی مجوزہ سرمایہ کاریوں میں پاکستان اور سری لنکا میں بندرگاہوں سے لے کر مشرقی افریقہ میں تیز رفتار ٹرینوں اور وسطی ایشیا سے گزرنے والی گیس پائپ لائنوں، سنکیانگ سے گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ تک 54ارب ڈالر کی لاگت کا زمینی راستہ، 1.1 ارب ڈالر کی لاگت سے سری لنکا کے شہر کولمبو میں ایک پورٹ سٹی کی تعمیر، سنکیانگ سے سنگاپور تک 1900 میل (3ہزار کلومیٹر) طویل تیز رفتار ٹرین کی پٹری بچھانے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوبور میں نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے منصوبے بھی شامل کئے گئے ہیں، اس کا ایک سبب چین کے عالمی اثر و رسوخ میں اضافے کی خواہش ہے تو دوسری وجہ ملکی شرح نمو سست ہونے سے متعلق خدشات ہیں۔ اس لحاظ سے پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارتی تشویش سمجھ میں آتی ہے جو سی پیک پر کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ حال ہی میں بھارت میں چین کے سفیر لیو ژوہیو نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک تقریب میں پاک چین اقتصادی راہداری پر وضاحت دی کہ سی پیک منصوبہ کسی لحاظ سے بھی بھارت کی ترقی کے خلاف نہیں اور وہ ون بیلٹ ون روڈ کی اِس گرینڈ اسکیم میں بھارت کی شمولیت چاہتے ہیں جس کیلئے وہ پروجیکٹ کا نام بھی تبدیل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی سفیر کے مذکورہ بیان پر کچھ حلقوں نے اعتراضات کئے تھے جس کے بعد چینی سفیر کو سی پیک کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے دیا گیا اپنا بیان واپس لینا پڑا۔
چین دنیا میں اپنے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے تجارت، دفاع، تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں لارہا ہے۔ حال ہی میں کراچی میں چین کے قونصل جنرل وانگ یونے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ تقریب میں پاکستان میں چینی ثقافت، زبان اور تعلیم کے فروغ پر معلوماتی پریذنٹیشن دی۔ اس تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور میرے علاوہ کراچی میں متعین مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور معززین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر چینی طائفے کا کلچرل شو پیش کیا گیا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین، پاکستان میں طویل المیعاد عرصے کیلئے چینی تعلیم، ثقافت اور زبان کا فروغ چاہتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ فورم میں وزیراعظم نواز شریف کی شرکت پاک چین اقتصادی راہداری کے طویل المیعاد پلان (LTP) کو حتمی شکل دینا تھا جس میں آئندہ دہائیوں میں پاکستان میں زراعت کے شعبے میں جدید زرعی ٹیکنالوجی کا حصول، کراچی سے پشاور تک مانیٹرنگ نظام، ٹیلیوژن کے ذریعے چینی ثقافت کا فروغ اور چینی باشندوں کیلئے ویزا فری پاکستان کے سفر کی سہولتیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی مارکیٹ میں چینی مصنوعات جن میں چائنا موبائل ہیںکی مارکیٹنگ اور سی پیک کے اسپیشل اکنامک زونز میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس، سیمنٹ، بلڈنگ میٹریل اور فرٹیلائزرز کی صنعتیں لگانا شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زرعی پیداوار بالخصوص پھل اور سبزیاں مناسب ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے باعث 50 فیصد ضائع ہوجاتی ہیں جنہیں محفوظ رکھنے کیلئے فوڈ پروسیسنگ زونز اور کولڈ اسٹوریج سہو لتیں بھی سی پیک کے طویل المیعاد منصوبوں (LTP)میں شامل کی گئی ہیں اور اس منصوبے میں سرمایہ کاری کیلئے چینی حکومت نے چائنا ڈویلپمنٹ بینک کا انتخاب کیا ہے۔ گزشتہ دنوں کچھ ٹی وی چینلز نے ان خبروں کو ’’نیوز لیکII‘‘ قرار دیا کہ ’’پاکستان کی زرعی زمینیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی جارہی ہیں۔‘‘ میرے نزدیک قانون میں اس بات کی اجازت نہیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف چین سے واپسی پر ہانگ کانگ میں اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ’’پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کرکے اپنی مارکیٹیں کھولنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔‘‘ بہرحال میں اس بارے میں مزید تفصیلات موصول ہونے تک اپنی رائے دینے سے گریز کروں گا لیکن حکومت سے درخواست ہے کہ وہ سی پیک کے طویل المیعاد پلان پرتمام صوبائی حکومتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ملکی مفاد میں فیصلہ کرے۔



.
تازہ ترین