• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مظہر بر لاس صاحب نے 19مئی 2017ء کے اپنے کالم ’’کبھی مایو س مت ہونا‘‘ میں ڈاکٹر عبدالمالک کے خلاف بلوچستان کی ترقی کیلئے کچھ نہ کچھ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جن لوگوں سے گفتگو کی ہے ان میں زبیدہ جلال، یعقوب بزنجو، نواب غوث بخش باروزئی اور مولانا غفور حیدری شامل ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ ڈاکٹر عبدالمالک کی سیاست کے خلاف ہیں، اور ان لوگوں سے حمایت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ برلاس صاحب نے بار بار ڈاکٹر عبدالمالک کو متوسط طبقے کا وزیراعلیٰ کہہ کر پاکستان کے اشرافیہ سے اپنے آپ کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
جب 2013ء میں ڈاکٹر عبدالمالک نے حکومت سنبھالی تو امن و امان کی صورتحال مخدوش تھی، گورننس نام کی کوئی چیز نہیں تھی، تمام ادارے بدحالی کا شکار تھے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زبوں حالی اور ان کے درمیان باہمی روابط اور اعتماد کا مکمل فقدان تھا۔ بلوچستان میں مزاحتمی تحریک اور دہشت گردی کے واقعات، قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی، رہزنی اور دیگر جرائم نے صوبے کو نو گو ایریا بنا دیا تھا۔ بلوچستان کی تمام شاہرائیں سفر کے قابل نہ تھیں اور صوبے کے شہر سرِشام ویران ہو جاتے تھے۔ عوام کی بڑی تعداد نے کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے نقل مکانی کو ہی اپنی عافیت سمجھا ہوا تھا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلو چ کی متوسط درجے کی لیڈرشپ نے سب سے زیادہ توجہ لاء اینڈ آرڈر، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو دی۔ آپ نے آتے ہی بقیہ صوبوں میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروایا جو کہ ملک کی تاریخ کے پرامن ترین انتخابات تھے۔ یاد رہے کہ باقی تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات تین سال بعد ہوئے اور وہ بھی سپریم کورٹ کی بار بار یاددہانی کے بعد۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے تعلیم کے بجٹ کو 4%سے بڑھا کر 24%اور صحت کے بجٹ کو 3%سے بڑھا کر 18%جبکہ زرعی شعبے کے بجٹ کو جو کہ 0%تھا، بڑھا کر 8%کر دیا۔ دنیا میں عوامی بنیادی ضرورتوں کا ایسا بجٹ کسی صوبے میں نہ اس پہلے تھا اور نہ ہی اب کہیں موجود ہے۔ صوبے میں 6نئی یونیورسٹیاں اور 3میڈیکل کالج اور مختلف اضلاع میں کیڈٹ کالجوں کی نہ صرف بنیاد رکھی گئی بلکہ اپنے ڈھائی سالہ دور کے اندر اندر ان میں داخلے کرانے کے ساتھ ساتھ کلاسوں کا باقاعدہ آغاز بھی کروایا۔ تمام بھرتیاں این ٹی ایس کے ذریعے محنت اور اہلیت کی بنیاد پر کی گئیں اور بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا سربراہ ایسے شخص کو بنایا گیا جس سے یہ ادارہ غیر جانبدار بن گیا اور نوجوانوں کا اس ادارے پر اعتماد بحال ہوا۔ ’’اسکول بھرو تحریک‘‘ کے ذریعے 3لاکھ سے زائد بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں داخل کیا گیا اور بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے ہر سال Phd-50اسکالر شپ کے اجرا کا انتظام کیا گیا اور غریب طالب علموں کو تعلیمی اخراجات کیلئے بڑی تعداد میں اسکالر شپس دیئے گئے۔
7ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیا گیا۔ آواران کے زلزلے کے لواحقین کو 5لاکھ فی کس اور 10ہزار سے زائد مکانات کی تعمیر ڈھائی ارب کی رقم سے شروع کی گئی اور اپنے ڈھائی سالہ دور میں 3ہزار مکانات کی تعمیر مکمل کی۔ زلزلے سے متاثرہ 54 اسکولوں اور 60صحت کے مراکز سمیت 64واٹر سپلائی اسکیموں کو بحا ل کیا گیا۔ زر اعت، مالداری اور ماہی گیری کے شعبوں میں نمایاں ترقی کا آغاز کیا۔
بندوبست اراضی کے ریکارڈ میں ہنگامی درستی کا سلسلہ شروع کیا جس میں صرف تحصیل پسنی میں سرکار کی اراضی 18235ایکڑ سے بڑھ کر 127765ایکڑ ہو گئی۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ اور بلوچستان مائنز اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ خان آف قلات، سلیمان داؤد براہمداغ بگٹی اور ملک سے باہر بیٹھی بلوچ قیادت سے مذاکرات کے ذریعے بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔پرامن بلوچستان کی پالیسی کے نتیجے میں سینکڑوں ’’مزاحمت کاروں‘‘ نے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ 70%سے زیادہ نقل مکانی کرنے والے عوام ڈھائی سالہ دور میں بلوچستان میں واپس آئے۔ متوسط طبقے کے وزیراعلیٰ نے ایک سیاسی اور جمہوری شخصیت کے طور پر ’’مری معاہدے‘‘ کا بھرپور احترام اور پاسداری کی یوں مری معاہدہ ایک روشن مثال اور رول ماڈل کے طور پر ملک کی سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
وہ پاکستانی تاریخ میں پہلے وزیراعلیٰ ہیں جنہو ں نے اپنے صوابدیدی خفیہ فنڈ کو رضاکارانہ طور پر نہ صرف بند کیا بلکہ ایک متوسط طبقے کے ایسے رول ماڈل کا روپ اختیار کیا جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور جس نے بلوچستا ن میں گورننس کے اعلیٰ روایات کی بنیاد ڈالی۔
بہت دکھ کے سا تھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے بعض دانشور ڈاکٹر عبدالمالک کے ڈھائی سالہ دور میں کئے جانے والے کاموں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ جب آپ اسے ایک متوسط طبقے کا وزیراعلیٰ کہتے ہیں تو ان کے بارے میں برلاس صاحب کو عام آدمیوں سے ہی پو چھنا چاہئے تھا نہ کہ سرداروں، نوابوں، جاگیرداروں کے پروردہ طبقے سے۔
اصل بات یہ ہے کہ آج پاکستا ن میں 1%اشرافیہ جو کہ سرداروں، نوابوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہے، وہ 99%عوام جو کہ محکوم قوموں اور مظلوم طبقات پر مشتمل ہیں، پر ریاستی اداروں کی مدد سے حکومت کر رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرح ایک عام آدمی کے وزیراعلیٰ بن جا نے سے ان کو سخت دھچکا لگا ہے اور وہ گاہے گاہے یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ متوسط طبقے کی قیادت کا حوصلہ پست کریں۔ آج اکیسویں صدی میں انسان سماجی شعور کی طرف گامزن ہے اور آنے والے وقت میں اس ہی متوسط طبقے کا وزیراعلیٰ، عوامی شعور کی بدولت پاکستان کا وزیراعظم بن جا ئے گا۔ بقول فیض
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو


.
تازہ ترین